Search This Blog
Friday, 11 December 2020
Tuesday, 8 December 2020
12 Common mistake in Urdu writing
*اردو لکھنے میں کی جانے والی 12 غلطیاں*
*پہلی غلطی*:
اردو کے مرکب الفاظ الگ الگ کر کے لکھنا چاہئیں، کیوں کہ عام طور پر کوئی بھی لفظ لکھتے ہوئے ہر لفظ کے بعد ایک وقفہ (اسپیس) چھوڑا جاتا ہے، اس لئے یہ خود بخود الگ الگ ہو جاتے ہیں۔
دراصل تحریری اردو طویل عرصے تک ’کاتبوں‘ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر اور کچھ اپنی بے علمی کے سبب بہت سے لفظ ملا ملا کر لکھتے رہے۔ جس کی انتہائی شکل ہم ’آجشبکو‘ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کر کے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑ کر لکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب یہ اردو کے الگ الگ الفاظ ہیں، تو مرکب الفاظ کی صورت میں جب انہیں ملا کر لکھا جاتا ہے، تو نہ صرف پڑھنا دشوار ہوتا ہے، بلکہ ان کی ’شکل‘ بھی بگڑ جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل میں ان الفاظ کی 12 اقسام یا ’طرز‘ الگ الگ کر کے بتائی جا رہی ہیں، جو دو الگ الگ الفاظ ہیں یا ان کی صوتیات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں الگ الگ کرکے لکھنا ضروری ہے۔
- جب کہ، چوں کہ، چناں چہ، کیوں کہ، حالاں کہ
- کے لیے، اس لیے، اس کو، آپ کو، آپ کی، ان کو، ان کی
- طاقت وَر، دانش وَر، نام وَر
- کام یاب، کم یاب، فتح یاب، صحت یاب
- گم نام، گم شدہ
- خوش گوار، خوش شکل
- الم ناک، وحشت ناک، خوف ناک
- دہشت ناک، کرب ناک
- صحت مند، عقل مند، دانش مند،
- شان دار، جان دار، کاٹ دار،
*اَن مول، اَن جانا، اَن مٹ، اَن دیکھا، اَن چُھوا
- بے وقوف، بے جان، بے کار، بے خیال، بے فکر، بے ہودہ، بے دل، بے شرم، بے نام،
- امرت سر، کتاب چہ
*خوب صورت، خوب سیرت وغیرہ
*دوسری غلطی*
اردو لکھتے ہوئے ہمیں یک سان آواز مگر مختلف املے کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے، جیسے کہ ’کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں وغیرہ
*تیسری غلطی*
اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے، جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املے کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’ی‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیراعلیٰ، رحمٰن اور اسحٰق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں ’ل‘ ساکت ہوتا ہے جیسے ’السلام علیکم‘ اسے ’ل‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہے۔
*چوتھی غلطی*
زیر والے مرکب الفاظ جیسے جانِِ من (نہ کہ جانے من) جانِ جاں (نہ کہ جانے جاں) شانِ کراچی (نہ کہ شانے کراچی) فخرِ پنجاب (نہ کہ فخرے پنجاب) اہلِ محلہ ( نہ کہ اہلے محلہ) وغیرہ کی غلطی بھی درست کرنا ضروری ہے۔
*پانچویں غلطی*
اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’کر دینا ہے‘ نہیں بلکہ ’کردیں گے‘ لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کر دو گے (نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کر دو گے (نہ کہ کردینی ہے) لکھنا چاہیے۔
*چھٹی غلطی*
اردو کے ’مہمل الفاظ‘ میں’ش‘ کا نہیں بلکہ ’و‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کتاب وتاب، کلاس ولاس، اسکول وسکول، پڑھائی وڑھائی، عادت وادت وغیرہ۔ انہیں کتاب شتاب، کلاس شلاس لکھنا غلط ہے۔
*ساتویں غلطی*
اردو میں دو زبر یعنی‘ تنوین‘ والے لفظوں کو درست لکھنا چاہیے، اس میں دو زبر مل کر ’ن‘ کی آواز دیتے ہیں جیسے تقریباً، اندازاً، عادتاً، اصلاً، نسلاً، ظاہراً، مزاجاً وغیرہ۔
*آٹھویں غلطی*
کسی بھی لفظ کے املے میں ’ن‘ اور ’ب‘ جہاں ملتے ہیں وہاں ’م‘ کی آواز آتی ہے، اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہے ’ن‘ اور ’ب‘ ہی لکھا جائے ’م‘ نہ لکھا جائے، جیسے انبار، منبر، انبوہ، انبالہ، استنبول، انبیا، سنبھل، سنبھال، اچنبھا، عنبرین، سنبل وغیرہ
*نویں غلطی*
اردو کے ان الفاظ کی درستی ملحوظ رکھنا چاہیے جو الف کی آواز دیتے ہیں، لیکن کسی کے آخر میں ’ہ‘ ہے اور کسی کے آخر میں الف۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے، تو اس کے معانی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے گلہ اور گلا، پیسہ اور پیسا، زن اور ظن، دانہ اور دانا وغیرہ وغیرہ۔
*دسویں غلطی*
الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ چاہے وہ گول ’ہ‘ پر ختم ہوں یا ’الف‘ پر، انہیں جملے میں استعمال کرتے ہوئے بعض اوقات جملے کی ضرورت کے تحت ’جمع‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے، حالاں کہ وہ واحد ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں جملے کا پچھلا حصہ یا اس سے پہلے والا جملہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ دراصل ’ایک‘ ہی چیز کا ذکر ہے۔ جیسے:
میرے پاس ایک ’بکرا‘ تھا، اس ’بکرے‘ کا رنگ کالا تھا۔
میرے پاس ایک ’چوزا‘ تھا، ’چوزے‘ کے پر بہت خوب صورت تھے۔
ہمارا ’نظریہ‘ امن ہے اور اس ’نظریے‘ کے تحت ہم محبتوں کو پھیلانا چاہتے ہیں۔
جلسے میں ایک پرجوش ’نعرہ‘ لگایا گیا اور اس ’نعرے‘ کے بعد لوگوں میں جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ ’ کوا ‘چونچ میں روٹی کا ٹکڑا پکڑا ہوا تھا، جوں ہی ’کوّے‘ سے روٹی کا ٹکڑا چُھوٹا، توں ہی وہ کائیں کائیں کرنے لگا۔
ایک ’کوا‘ پیاسا تھا، اس ’کوے‘ نے پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کیا۔
*گیارہویں غلطی*
انگریزی الفاظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ جو الفاظ یا اصطلاحات (ٹرمز) رائج ہو چکی ہیں، یا جن کا کوئی ترجمہ نہیں ہے یا ترجمہ ہے تو وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا، اس لیے انہیں ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ انگریزی میں ہی لکھ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن انگریزی الفاظ کو اردو میں لکھا جائے گا، ان کی جمع اردو کی طرز پر بنائی جائے گی، نہ کہ انگریزی کی طرز پر، جیسے اسکول کی اسکولوں، کلاس کی کلاسوں، یونیورسٹی کی یونیورسٹیوں، اسٹاپ کی اسٹاپوں وغیرہ۔ تیسری بات یہ ہے کہ انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ جو ’ایس‘ سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ان کے شروع میں ’الف‘ کی آواز ہوتی ہے، انہیں اردو میں لازمی طورپر الف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے اسکول، اسٹاپ، اسٹاف، اسٹیشن، اسمال، اسٹائل، اسٹوری، اسٹار وغیرہ۔ لیکن ایسے الفاظ جو شروع تو ’ایس‘ سے ہوتے ہیں لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز نہیں ہے انہیں الف سے نہیں لکھا جائے گا، جیسے سچیویشن، سورس، سینڈیکیٹ، سیمسٹر، سائن اوپسس وغیرہ۔
*بارہویں غلطی*
ہندوستانی فلموں نے اردو پر جو بھدا اثر ڈالا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں لفظ ’اپنا‘ کی جگہ میرا بولا جاتا ہے۔ ہمیں اردو لکھتے ہوئے اسے ٹھیک کرنا چاہیے، اس لیے ’میں میرے نہیں‘ بلکہ ’میں اپنے لکھا جائے‘ جیسا کہ میں میرے گھر میں میرے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بالکل غلط ہوگا، درست جملہ یوں ہوگا کہ میں اپنے گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
*نقل و ارسال*
انتخاب: سلیم خان
📢🎤📢🎤📢🎤 *🌼خوش آئند فیصلہ برائے ٹرانسفر سنگل سکول ٹیچرز🌼**🏵️محترم اساتذہ کرام! سیکرٹری سکولز پنجاب نے سنگل سائنس سکول ٹیچرز کو تین سالہ مدت پوری کرنےکےبعدتبادلہ کی سہولت دینے کی سفارش کردی ہے**🌷 امید ہے اس سہولت سے تمام سنگل سکول ٹیچرز کو سہولت ملےگی۔**🌺ہم اس فیصلہ کو قابل تحسین قرار دیتے ہیں* ☝🏼🌹🌹🌹🌹🌹 *_Good News !!!_**_All kinds of single teachers especially Single Science Teacher will be able for transfer in the next round of E-transfer._*
Sunday, 29 November 2020
Verb
*Verb*
Verb is a word which shows action and state of being ...
Thus verb shows two things
1...Action.....and ...2...state of being ..
The verb which shows action is called as DYNAMIC VERB , whileas the verb which doesn't show action ( shows state i,e...what a person is ) is called as STATIVE verb ...
Dynamic verbs change their form like play,plays ,played ,
While as STATIVE verbs don't change their form (..e.g...is , was ,)
Sometimes the verb is incomplete
E.g ...she seems
Such a verb which is incomplete is called as incomplete predication..
well, it requires a word to get completed like happy...
She seems HAPPY..
The word "happy" completes above verb ...
The word which completes the verb is called as complement of the verb
*TYPES OF VERB*
She plays cricket .
Look at the above sentence , it has both subject and object..
The verb which passes from subject to object or simply which has both subject and object is called as
TRANSISTIVE VERB...
She Died ...
In this verb doesn't pass from subject to object...
Such a verb is called as intransitive verb....
Moreover, sometimes a verb may have two objects like.
Sahil plays chess and volley ball...
Such a verb is called as Di- TRANSISTIVE verb.
Sunday, 15 November 2020
Leave Rules In School Education Deparment
*Leave Rules in Education Department Punjab Pakistan*
If you are working in Punjab School Education Department then it is utmost important to get familiarization about your departmental rules about sanctioning leaves. One of most important news is casual leave sanctioning through online by HRMS.
*Types of Leaves*
There are different types of leaves are allowed for any employee especially teachers of school education department. These all leave types you can avail by understand the procedure of how can apply for leave.
*Casual Leave*
♦ 25 Days Casual leaves are allowed in a year.
♦ You can take up to 10 days leave at a time by Dy. DEO.
♦ You can also take 15 days leave at a time by competent authority.
*E-Leaves / Earned Leaves*
You have earned a bonus of 120 days (1×12=12 after 10 years of service you will earn a bonus of 120 days) after your service of more then 16 days so you can take E/leaves without medical certificate but they will be excluded from your bonus you can also take/leaves of 180 days but with medical certificate.
*Extraordinary Leaves*
If your service is of 5 years and you want to take 2 years leave you can apply for EOL But with out pay and they will be deducted from your total service.
*Special Leave*
(Not deducted from your bonus)
♦ Maternity leave
Maternity leave of 90 days female two time in entire service with full pay.
♦ Paternity Leave
Paternity leave of 15 days.
♦ Hajj Leave
Hajj Leave or Ex Pakistan Leave of 40 days.
♦ Iddat Leave
Iddat leave of 130 days once in a service with pay for females.
♦ Sick Leave
Sick leave of 90 days with medical certificate
♦ Hospital Leave
Hospital leave of 6 month in case you met with any accident.
♦ Half Pay Leave
If you want to take more then E-Leave you can but on half pay.
♦ Study Leave
Study leave, you can apply for it after you become permanent till completion course with basic pay.. normally two years.
Friday, 23 October 2020
Saturday, 12 September 2020
Saturday, 22 August 2020
Monday, 20 July 2020
Monday, 8 June 2020
Sunday, 17 May 2020
Saturday, 16 May 2020
Monday, 11 May 2020
How to Speak English
*How to speak English fluently and confidently*
You want to learn how to speak English fluently, but do not know where to start? Here are 10 simple tips...
*1. Start with believing in yourself.*
“I was afraid to speak. I was scared people would make fun of me. Will they judge me?
One day, I thought if so many people can, even I can. So I spoke in English and my confidence increased.
*2. Listen. Speak. Read. Write. Repeat.*
Listen a little. Speak a little. Read a little. Write a little. Then, listen a little more. Speak a little more. Read a little more. Write a little more. Do this, till it becomes a habit.
*3. Keep your ears open.*
English is everywhere. It’s in online videos, news channels, on radio. So listen and build your vocabulary.
*4. Find the answer in the question.*
Questions are like mirrors. Reverse the question, and find the answer.
Does he…? Yes, he does
Is it…? Yes, it is
Can you? Yes, I can.
*5. Make the mirror your best friend.*
Speak to it in English, and it will make you feel confident about the way you are speaking.
*6. Read full sentences, speak in sentences.*
7. Keep calm and do not worry about grammar.
Remember, even those who speak English fluently make grammatical mistakes. But, what they do right, is communicate without worrying about them.
*8. Find an English newspaper and learn a word a day.*
Keep your fear of new English words away.
*9. Use the word before it leaves you.*
Use the new word immediately to feel confident about it’s usage.
*10. Practice. Practice. Practice. Till it makes you perfect.*
There are no shortcuts in life. Definitely, no shortcuts to learn English.
Saturday, 9 May 2020
Sunday, 3 May 2020
Why Should English Learner Read Poetry
Why Should English Learners Read Poetry?
Poetry helps learners improve their speaking, writing, reading and listening skills in many different ways. For starters, poetry can teach you tons of new vocabulary. Not only will you encounter many new words, but many poems rhyme as well, which offers an incredible memory boost.
Poetry will also teach you the art of word choice . Poems are very different from prose (how language is normally written). Poets must convey a powerful message within a small amount of space. Because of this, poets are very careful about the words they select.
By paying attention to a poem’s word choice, you can learn how to choose the best possible English word to convey your own thoughts in both speaking and writing.
Furthermore, poets pay special attention to the stress and intonation of words and sentences . If you want to improve these areas of your English speech, poetry is one of the best ways to do it.
Punctuation is also an important part of poetry. It changes the way the poem sounds when read aloud, and it can even alter the poem’s meaning. Reading poetry will help you learn exactly what punctuation conveys and how to use it correctly .Want your reading comprehension to improve? Poems will teach you about literary devices in English, which are creative writing techniques—often the author will discuss something in a figurative (non-literal or unrealistic) way. Examples of literary devices are metaphors, allegories and symbolism.
If you can begin to identify these through poetry, then you’ll have a better understanding of most things you read in English . You won’t get confused by interpreting something too literally. For advanced learners, reading English poetry is one of the biggest ways you can learn to experiment with the English language . Poetry is famous for breaking English language rules. Knowing how to successfully bend these grammatical rules to convey meaning is part of mastering English.
Finally, reading poetry is a fun way to gain insight into English-speaking cultures and history since literary works reveal a lot about society.
Read the following poem and study it.
I am pauper.
I am pauper, I am pauper,
As I whine in the glittering dark,
Tears cascades from my eyes.
I sat sadly in the nook of my cubbyhole,
My suspire fluctuates like boxing gloves,
I perturbed by the pesky of tenebrous life.
Poverty became my ceremonial attire,
I perambulate to unknown direction,
I perspire under scorching cold sun.
My lips desiccate like barren weeds,
I rummage victuals to soak my cranny mouth,
Oh! Life is pestilent, people jettison a pauper.
When I walk, children burlesque me,
I live in tattered as carrion eaten by wild,
Am I a nutty? My eyes craning in the dark?
I'm eating from rotten junkyard foods,
I sleep on the fragmented, deplorable floor,
I writhe in my infinitesimal cubbyhole.
Hungry has decomposed my intestines,
Poverty wreathe the shape of my body,
Like a wrought metal used by the Smith.
It has chunked my capillary and glands,
It seizes my respiration and hooked my throat,
Why do you want to suffocate me, oh! Poverty.
Living me crawling like a dying cockroach,
And life is unpredictable without penny,
You look like insane, when you have no money.
How I wish to be a rich enough,
I could have been succored the needy,
Who eat crumbs to survive.
Tuesday, 28 April 2020
Commas And Periods In Commas
Commas and periods are the most frequently used punctuation marks. Commas customarily indicate a brief pause; they're not as final as periods.
Rule 1. Use commas to separate words and word groups in a simple series of three or more items.
Example: My estate goes to my husband, son, daughter-in-law, and nephew.
Note: When the last comma in a series comes before and or or (after daughter-in-law in the above example), it is known as the Oxford comma. Most newspapers and magazines drop the Oxford comma in a simple series, apparently feeling it's unnecessary. However, omission of the Oxford comma can sometimes lead to misunderstandings.
Example: We had coffee, cheese and crackers and grapes.
Adding a comma after crackers makes it clear that cheese and crackers represents one dish. In cases like this, clarity demands the Oxford comma.
We had coffee, cheese and crackers, and grapes.
Fiction and nonfiction books generally prefer the Oxford comma. Writers must decide Oxford or no Oxford and not switch back and forth, except when omitting the Oxford comma could cause confusion as in the cheese and crackers example.
Rule 2. Use a comma to separate two adjectives when the order of the adjectives is interchangeable.
Example: He is a strong, healthy man.
We could also say healthy, strong man.
Example: We stayed at an expensive summer resort.
We would not say summer expensive resort, so no comma.
Another way to determine if a comma is needed is to mentally put and between the two adjectives. If the result still makes sense, add the comma. In the examples above, a strong and healthy man makes sense, but an expensive and summer resort does not.
Rule 3a. Many inexperienced writers run two independent clauses together by using a comma instead of a period. This results in the dreaded run-on sentence or, more technically, a comma splice.
Incorrect: He walked all the way home, he shut the door.
There are several simple remedies:
Correct: He walked all the way home. He shut the door.
Correct: After he walked all the way home, he shut the door.
Correct: He walked all the way home, and he shut the door.
Rule 3b. In sentences where two independent clauses are joined by connectors such as and, or, but, etc., put a comma at the end of the first clause.
Incorrect: He walked all the way home and he shut the door.
Correct: He walked all the way home, and he shut the door.
Some writers omit the comma if the clauses are both quite short:
Example: I paint and he writes.
Rule 3c. If the subject does not appear in front of the second verb, a comma is generally unnecessary.
Example: He thought quickly but still did not answer correctly.
But sometimes a comma in this situation is necessary to avoid confusion.
Confusing: I saw that she was busy and prepared to leave.
Clearer with comma: I saw that she was busy, and prepared to leave.
Without a comma, the reader is liable to think that "she" was the one who was prepared to leave.
Rule 4a. When starting a sentence with a dependent clause, use a comma after it.
Example: If you are not sure about this, let me know now.
Follow the same policy with introductory phrases.
Example: Having finally arrived in town, we went shopping.
However, if the introductory phrase is clear and brief (three or four words), the comma is optional.
Example: When in town we go shopping.
But always add a comma if it would avoid confusion.
Example: Last Sunday, evening classes were canceled. (The comma prevents a misreading.)
When an introductory phrase begins with a preposition, a comma may not be necessary even if the phrase contains more than three or four words.
Example: Into the sparkling crystal ball he gazed.
If such a phrase contains more than one preposition, a comma may be used unless a verb immediately follows the phrase.
Examples:
Between your house on Main Street and my house on Grand Avenue, the mayor's mansion stands proudly.
Between your house on Main Street and my house on Grand Avenue is the mayor's mansion.
Rule 4b. A comma is usually unnecessary when the sentence starts with an independent clause followed by a dependent clause.
Example: Let me know now if you are not sure about this.
Rule 5. Use commas to set off nonessential words, clauses, and phrases (see Who, That, Which, Rule 2b).
Incorrect: Jill who is my sister shut the door.
Correct: Jill, who is my sister, shut the door.
Incorrect: The man knowing it was late hurried home.
Correct: The man, knowing it was late, hurried home.
In the preceding examples, note the comma after sister and late. Nonessential words, clauses, and phrases that occur midsentence must be enclosed by commas. The closing comma is called an appositive comma. Many writers forget to add this important comma. Following are two instances of the need for an appositive comma with one or more nouns.
Incorrect: My best friend, Joe arrived.
Correct: My best friend, Joe, arrived.
Incorrect: The three items, a book, a pen, and paper were on the table.
Correct: The three items, a book, a pen, and paper, were on the table.
Rule 6. If something or someone is sufficiently identified, the description that follows is considered nonessential and should be surrounded by commas.
Examples:
Freddy, who has a limp, was in an auto accident.
If we already know which Freddy is meant, the description is not essential.
The boy who has a limp was in an auto accident.
We do not know which boy is meant without further description; therefore, no commas are used.
This leads to a persistent problem. Look at the following sentence:
Example: My brother Bill is here.
Now, see how adding two commas changes that sentence's meaning:
Example: My brother, Bill, is here.
Careful writers and readers understand that the first sentence means I have more than one brother. The commas in the second sentence mean that Bill is my only brother.
Why? In the first sentence, Bill is essential information: it identifies which of my two (or more) brothers I'm speaking of. This is why no commas enclose Bill.
In the second sentence, Bill is nonessential information—whom else but Bill could I mean?—hence the commas.
Comma misuse is nothing to take lightly. It can lead to a train wreck like this:
Example: Mark Twain's book, Tom Sawyer, is a delight.
Because of the commas, that sentence states that Twain wrote only one book. In fact, he wrote more than two dozen of them.
Rule 7a. Use a comma after certain words that introduce a sentence, such as well, yes, why, hello, hey, etc.
Examples:
Why, I can't believe this!
No, you can't have a dollar.
Rule 7b. Use commas to set off expressions that interrupt the sentence flow (nevertheless, after all, by the way, on the other hand, however, etc.).
Example: I am, by the way, very nervous about this.
Rule 8. Use commas to set off the name, nickname, term of endearment, or title of a person directly addressed.
Examples:
Will you, Aisha, do that assignment for me?
Yes, old friend, I will.
Good day, Captain.
Rule 9. Use a comma to separate the day of the month from the year, and—what most people forget!—always put one after the year, also.
Example: It was in the Sun's June 5, 2003, edition.
No comma is necessary for just the month and year.
Example: It was in a June 2003 article.
Rule 10. Use a comma to separate a city from its state, and remember to put one after the state, also.
Example: I'm from the Akron, Ohio, area.
Rule 11. Traditionally, if a person's name is followed by Sr. or Jr., a comma follows the last name: Martin Luther King, Jr. This comma is no longer considered mandatory. However, if a comma does precede Sr. or Jr., another comma must follow the entire name when it appears midsentence.
Correct: Al Mooney Sr. is here.
Correct: Al Mooney, Sr., is here.
Incorrect: Al Mooney, Sr. is here.
Rule 12. Similarly, use commas to enclose degrees or titles used with names.
Example: Al Mooney, M.D., is here.
Rule 13a. Use commas to introduce or interrupt direct quotations.
Examples:
He said, "I don't care."
"Why," I asked, "don't you care?"
This rule is optional with one-word quotations.
Example: He said "Stop."
Rule 13b. If the quotation comes before he said, she wrote, they reported, Dana insisted, or a similar attribution, end the quoted material with a comma, even if it is only one word.
Examples:
"I don't care," he said.
"Stop," he said.
Rule 13c. If a quotation functions as a subject or object in a sentence, it might not need a comma.
Examples:
Is "I don't care" all you can say to me?
Saying "Stop the car" was a mistake.
Rule 13d. If a quoted question ends in midsentence, the question mark replaces a comma.
Example: "Will you still be my friend?" she asked.
Rule 14. Use a comma to separate a statement from a question.
Example: I can go, can't I?
Rule 15. Use a comma to separate contrasting parts of a sentence.
Example: That is my money, not yours.
Rule 16a. Use a comma before and after certain introductory words or terms, such as namely, that is, i.e., e.g., and for instance, when they are followed by a series of items.
Example: You may be required to bring many items, e.g., sleeping bags, pans, and warm clothing.
Rule 16b. A comma should precede the term etc. Many authorities also recommend a comma after etc. when it is placed midsentence.
Example: Sleeping bags, pans, warm clothing, etc., are in the tent.
NOTE
The abbreviation i.e. means "that is"; e.g. means "for example."
ARE YOU READY FOR THE QUIZ?
COMMAS QUIZ 1 COMMAS QUIZ 2
TOP FIVE GRAMMAR BLOG POSTS
Capitalization of Academic Degrees
Into vs. In to
Writing Dates and Times
Apostrophes with Words Ending in "s"
Titles of Books, Plays, Articles, etc.: Underline? Italics? Quotation Marks?
Thursday, 23 April 2020
How To Write Answer In English Literature Paper
𝐇𝐨𝐰 𝐭𝐨 𝐖𝐫𝐢𝐭e Answer 𝐢𝐧 𝐄𝐧𝐠𝐥𝐢𝐬𝐡
𝐋𝐢𝐭𝐞𝐫𝐚𝐭𝐮𝐫𝐞 𝐏𝐚𝐩𝐞𝐫
First of all when writing any question, we have to talk about the main theme of the question. This is very important. Generally, we do not read the whole question and just start writing whatever comes to our mind. It is due to the shortage of time. We have so many questions to attempt so we cannot afford so much time. At that time you need to draw the complete structure of the question. It is very much important to make an outline of the question. You may have a lot of content about the asked question but it is necessary to figure out the most important content that you are supposed to write. Divide your answer into three main parts.
1. Introduction
2. Main Body
3. Conclusion
Introduction and conclusion in any question are very important. Because if we do not introduce any question or do not conclude it then it will be an incomplete format which is the bad impression for the examiner. You must work on alpha and omega of question.
We know that every word has a different meaning. Let’s discuss various words that would be asked in an exam and what their meaning is.
𝟭. 𝗗𝗲𝗳𝗶𝗻𝗲
When you are writing about definition then they would not expect a stupid answer from you. They actually ask you to define the question that has a proper definition. You need to state a proper definition and you precise about it. It will be authentic and clear.
𝟮. 𝗗𝗲𝘀𝗰𝗿𝗶𝗯𝗲
Describe means you have to give complete information about anything e.g. How and why some things happen. You have to give a complete description in descriptive format.
𝟯. 𝗘𝘅𝗽𝗹𝗮𝗶𝗻
Explain means you have to clarify topic detail as how and why. You have to write the complex procedure, sequences of events that would be easily understood. Things should be mentioned in chronological order for this sort of question. This is something that will explain completely and it comes from one step to another. You did not miss your knowledge.
𝟰. 𝗘𝗹𝗮𝗯𝗼𝗿𝗮𝘁𝗲
Elaborate means a statement that you have to expand it. You have to touch every area of it. You have to draw 360o angle then you are touching every angle. For example, if you are talking about social, economic and political perspective of Victorian age then it is necessary to elaborate every aspect related to it such as Industrial Revolution, Reform acts etc.
𝟱. 𝗗𝗲𝗺𝗼𝗻𝘀𝘁𝗿𝗮𝘁𝗲
Demonstrate means show how with an example to illustrate. It means give a complete demonstration of any things. Furthermore, you have to explain it with help of example.
𝟲. 𝗖𝗿𝗶𝘁𝗶𝗰𝗮𝗹𝗹𝘆 𝗔𝗻𝗮𝗹𝘆𝘇𝗲
We have a word critical but never means to criticize anything. Critically means you have to talk about the positive and negative aspect of the question.
𝟳. 𝗖𝗼𝗺𝗽𝗮𝗿𝗲
Compare means you are comparing one thing with another. For that, you have to draw a line of similarities and dissimilarities. For example, in question, they asked that compare Classicism and Romanticism. You have to compare their similarities and dissimilarities in the proper format.
𝟴. 𝗖𝗼𝗺𝗺𝗲𝗻𝘁 𝗼𝗿 𝗢𝗽𝗶𝗻𝗶𝗼𝗻
These word like comment or opinion. Means what is your opinion? What are your views? They are completely asking you. They are asking what your opinion is. Then in answer, you use the word ‘I’, ‘According to me’.
*𝐁𝐄𝐒𝐓 𝐎𝐅 𝐋𝐔𝐂𝐊*
Wednesday, 22 April 2020
Tuesday, 21 April 2020
Gulliver's Travel As a Symbolical Work
Gulliver's Travel As a Symbolical Work..
Jonathan Swift (1667-1745) was an author, journalist, and political activist. He is best known for his satirical novel Gulliver's Travel and satirical essay on the Irish famine, "A Modest Proposal." 'Gulliver's Travels' is a book of fantasy, satire and political allegory, and it is much liked in all ages. He wrote Gulliver's Travels in 1725, and it was published in 1726. The book got a great success throughout the British Empire and earned the titles of writer and commentator of great quality and reputation for the author. In this book, the travel of Gulliver, a surgeon on a merchant ship, is made to four imaginary countries. So, the book is divided into four parts. His first travel is to Lilliput whose inhabitants are about six inches tall. His second visit is to Brobdingnag, the country of the giants. His third visit is to the Islands of Laputa and Legedo, inhabited by philosophers and scientists, keeping love for music and mathematics. His last visit is to the land of the Honyhnhnms and Yahoos. They are rational and civilized horses, and the yahoos are unreasonable and bestial human beings, completely dirty.
Before discussing the symbols of his work, 'The Gulliver's Travel', we should know something about the literary term 'symbol'. The word' Symbol' is derived from Late Latin word 'Symbolum' means token, sign or emblem. It is, indeed, the ornament of literature. The author uses it to expose all the hidden things or the philosophy of work honestly to the readers, as they may not face to any difficulties to be understood. If such thing happened, the work would not be interesting and helpful for representing the age. It is evident that Jonathan Swift has used symbols to convey his ideas to the readers by making it easier with the help of it. Keeping in view all things, we can say that a symbol is something that stands for something else. In Gulliver's Travels, everything stands for something else because it is written for the purpose of criticizing contemporary philosophies and customs. Nearly every person in this book stands either for a historical figure or for an idea.
Let's survey the symbols used in his work, The Gulliver's Travel'.
In the first book, Swift narrates Gulliver's visit to Lilliputians, the six- inch inhabitants. They represent the symbol of extreme pride of mankind. The author represents the race ironically. He finds that they are small creatures with small minds, but they are the stock of backbiting and conspiracy; despite it, they consider themselves grand. Gulliver comes under the spell of their vain-glory and is made credulous by their threats of punishment, although the race has no real physical power over him. Gulliver learns more about Lilliputians' culture and the great difference in size between him and the race. It is explicit satire of British government. Gulliver finds Lilliputian government officials are chosen by their skill at rope dancing which is recognized arbitrary and ridiculous. It symbolizes England's system of political appointment that is arbitrary. The difference in their sizes symbolizes the importance of physical power. Gulliver can crush the Lilliputians by walking carelessly, but they don't realize their own insignificance that symbolizes their small-mindedness. They keep Gulliver tied up, believing that they can control him. Swift symbolizes it humanity's hollow claim to power and significance.
Swift is very careful in case of his satire and using symbols. The articles signed by Gulliver for gaining his freedom are in formal and self- important language symbolizes meaningless and self- contradictory piece of paper, because Gulliver is the symbol of great strength and power. He can violate all bonds for his own safety. The history of the conflict between Lilliput and Blefuscu is ridiculous. The High-Heels and the Low-Heels symbolize the Whigs and Tories of English politics. Lilliput and Blefuscu symbolize England and France. The violent conflict between Big Endians and Little Endians symbolizes the Protestant Reformation and the centuries of warfare between Catholics and Protestants. So, European history is as a series of brutal wars over meaningless and arbitrary disagreements. The conflict' how a person chooses to crack an egg' is a symbol of silliness and triviality. It is ridiculous and unreasonable can be concluded that there is no right or wrong way to worship. Swift suggests that the Christian Bible can be interpreted in more than one way. It is ridiculous for people to fight over how to interpret it when one is uncertain that one's interpretation is right and others are wrong.
The Lilliputian Emperor is the symbol of tyranny, cruelty and corruption, and he is obsessed with ceremony showing a changeless symbol of bad government. It is also a biting satire on George I, the King of England (from 1714 to 1727), during much of Swift's career. He has no admiration for the king. The Lilliputian empress stands for Queen Anne, who blocked Swift's advancement in the Church of England, having taken offense at some of his earlier satires. Gulliver's urination on her quarter represents Swift's work 'A Tale of a Tub'. The empress's disgust at Gulliver's urination is similar to Queen Anne's criticism of Swift's work and her efforts to make his prospects limited in the Church of England. Actually, his urination symbolizes his ability to control the Lilliputians. It illustrates the importance of physical power. Gulliver disobeys the emperor's order to destroy the fleet of Blefuscu signs the feelings of his responsibility toward all beings. Gulliver finds himself in a position to change the Lilliputians society for ever. There is a reference of army between Lilliput and Blefuscu symbolizes their patriotic glories with such proudly marching of armies. The Lilliputian emperor's request to Gulliver to serve as a kind of makeshift Arch of Triumph for the troops to pass is a pathetic reminder that their grand parade is supremely silly. The war with Blefuscu is the symbol of absurdity that comes out from wounded vanity. Hence the Lilliputians symbolize lost human pride and it indicates Gulliver's inability to diagnose it correctly.
In book II (Part II), Jonathan Swift narrates Gulliver's visit to giants' island. Here his walking is not symbol of danger for the Borbdingnagians as it was in his visit to Lilliput because the situation is in reverse. Borbdingnagians represent English ways. After a short period as a working freak, Gulliver is rescued by the king and the queen, and he lives a life of considerable comfort at court. He spends much of his time learning the language and talking with the king about life in England. The king emerges as a fair, merciful ruler, very sympathetic and humane man. The Borbdingnagians symbolize the private, personal and physical side of human beings, when examined up close. In Lilliputians, Gulliver symbolized god-like power, but here he is the symbol of slave and puppet to perform various tricks for paying spectators. The Borbdingnagians do not symbolize negative human characteristics. The behaviour of Borbdingnagians is different and seems to be more civilized than Gulliver. The good will of the queen toward Gulliver and common sense views are found. His enslavement is virtual that symbolizes fundamental humanity of Borbdingnagians. So, it is similar to Europeans who become happy to make a quick jump when the opportunity arises. He is a golden puppet in their hands, and he is given a comfortable cradle with the protection from the rats.
In this book, we find a dwarf who is unable to gain the power that generally accompanies great physical size, but he gets distinctiveness which symbolizes the politics of those who attempt to achieve power not through physical strength but through their distinctiveness that is exactly immoral and ordinary. The ladies and their flaws symbolize imperfection as examined up through close enough scrutiny. Gulliver's microscopic view of flies and flesh symbolizes the discovery of microscope. The late seventeenth century saw the first publication of books, containing magnified images. Such microscope views knew levels of intricacy and fault. In his eyes, the tiny size of Europeans is matched by their moral weakness. Gulliver's offer of gun powder represents imperfection of the British. The king's refusal symbolizes this race more human than the other races. It means that, in this society, the vices are minimized as much as possible. Although this race has achieved a huge moral achievement, it is not yet perfect.
Gulliver's third visit is to Lupta that shows Swift's attack on science and abstract knowledge. The Laputans are the symbol of the stupidity of theoretical knowledge irrelevant to human life. During his voyage, his ship was attacked by the pirates. He spoke with them in Dutch language, but later on his exposure of heathen more merciful than Christian symbolized Swift's religious belief. In this visit, power is implemented not through physical size but through technology. The floating Island is both a formidable weapon and an allegorical image represents the symbol of the government and the people. In this visit, he narrates the Laputans' rigid devotion to abstract theory, language, architecture and geography symbolizes non-humanity. The scientists are engaged to extract sun beams from cucumber and to turn excrement back into food and to turn ice into gun powder. The architect are engaged to design way to build houses from the roof down that symbolizes impossibility and purposelessness, representing scientific society founded in 1660. Robert Boyle, Robert Hooke and Isaac Newton were all members of the Royal society. Its main task was to use the new techniques of science to improve the craft etc. The theorist ruined a country by forcing its people to follow their fresh and wholly useless methods.
Gulliver's escaping to Glubbdubdrib symbolizes Swift's attempt to challenge the standards of abstract learning. Overall, the Ancient Greeks and the Romans were understood truly virtuous, whereas European to somewhat were degenerated. Apart from it, the Struldburgs of Luggnagg symbolize human desires. They seek eternal life and primary benefits of old age. Indeed, the wisdom of the old age can be used to help humanity, but the immortal Struldburgs grow only more prejudiced and selfish. The Struldbrugs'immense sadness and the emptiness of Gulliver's desire to acquire riches symbolize Swift's condemnation of such self-absorbed goals as the state of small minds irrelevant to good society.
Jonathan Swift narrates the fourth voyage of Gulliver to Honyhnhnms, representing an ideal of rational existence. Here, man is supposed to be yahoo, and he is subjected to the animals. It represents that the animals are more civilized or a model citizen. Their society is safe from crimes, poverty, disagreement and unhappiness. They are unaware of passion, joy and ecstatic love. The Honyhnhnms appeal to reason rather than any holy writing as the criterion for proper action. They do not use force but only strong exhortation. Gulliver's entire grief suggests that they made an impact on him greater than that of any other society he has visited.
Indeed, it is a bitter criticism on human beings. Jonathan Swift chose mankind in all three visits, but here he chose animals. Indeed, the Honyhnhnms represent man's wrong and ostentatious arrogance in the power of reason. Gulliver's making canoe by stitching to gather the skins of yahoos for escaping from the island represents his swift cynicism for mankind. If we, further, discuss it, it is the main weapon of the cynic or satirist to improve the mankind because every satirist is a reformer by heart.
Indeed, it is the view of his book in nut shell. His work needs more attention and more time. It hides a great treasure of the relevant age. It is acknowledged that his criticism is swift and hard, but he has not used to exploit the human beings but to correct them by picking out their follies.
Twentieth-century novels and other prose
Twentieth-century novels and other prose
The long reign of Queen Victoria ended in 1901. There was a sweeping social reform and unprecedented progress. The reawakening of a social conscience was found its expression in the literature produced during this period.
Rudyard Kipling was born in Bombay but soon moved to Lahore. He worked as a news reporter in Lahore. Kipling was a prolific and versatile writer. His insistent proclamation of the superiority of the white races, his support for colonization, his belief in the progress and the value of the machine etc. found an echo on the hearts of many of his readers. His best-known prose works include Kim, Life’s Handicap, Debits and Credits, and Rewards and Fairies. He is now chiefly remembered for his greatest work, The Jungle Book.
E.M Forster wrote five novels in his life time. Where Angels Fear to Tread has well-drawn characters. Other novels are The Longest Journey, A Room with a View, Howards End, and A Passage to India. A Passage to India is unequal in English in its presentation of the complex problems which were to be found in the relationship between English and native people in India. E.M Forster portrayed the Indian scene in all its magic and all its wretchedness.
H.G Wells began his career as a journalist. He started his scientific romances with the publication of The Time Machine. The Invisible Man, The War of the Worlds, The First Men in the Moon and The Food of the Gods are some of his important science romances. Ann Veronica, Kipps and The History of Mr Polly are numbered among his sociological novels.
D.H Lawrence was a striking figure in the twentieth century literary world. He produced over forty volumes of fiction during his period. The White Peacock is his earliest novel. The largely autobiographical and extremely powerful novel was Sons and Lovers. It studies with great insight the relationship between a son and mother. By many, it is considered the best of all his works. Then came The Rainbow, suppressed as obscene, which treats again the conflict between man and woman. Women in Love is another important work. Lady Chatterley’s Lover is a novel in which sexual experience is handled with a wealth of physical detail and uninhibited language. Lawrence also excelled both as a poet and short story writer.
James Joyce is a serious novelist, whose concern is chiefly with human relationships- man in relation to himself, to society, and to the whole race. He was born in Dublin, Ireland. His first work, Dubliners, is followed by a largely autobiographical novel A Portrait of the Artist as a Young Man. It is an intense account of a developing writer. The protagonist of the story, Stephen Dedalus is James Joyce himself. The character Stephen Dedalus appears again in his highly complex novel, Ulysses published in 1922. Joyce’s mastery of language, his integrity, brilliance, and power is noticeable in his novel titled Finnefan’s Wake.
Virginia Woolf famed both as a literary critic and novelist. Her first novel, The Voyage Out is told in the conventional narrative manner. A deeper study of characters can be found in her later works such as Night and Day, Jacob’s Room, To the Lighthouse, Mrs. Dalloway and Orlando. In addition to her novels, Virginia Woolf wrote a number of essays on cultural subjects. Woolf rejected the conventional concepts of novel. She replaced emphasis on incident, external description, and straight forward narration by using the technique “Stream of Consciousness”. James Joyce and Virginia Woolf popularized this writing technique.
George Orwell became a figure of outstanding importance because of Animal Farm. It is a political allegory on the degeneration of communist ideals into dictatorship. Utterly different was Nineteen Eighty-Four on the surveillance of state over its citizen. Burmese Days and The Road to Wigan Pier are other works.
William Golding deals with man’s instinct to destroy what is good, whether it is material or spiritual. His best known novel is Lord of the Flies. The Scorpion God, The Inheritors and Free Fall are other notable works.
Somerset Maugham was a realist who sketched the cosmopolitan life through his characters. The Moon and Sixpence, Mrs. Craddock and The Painted Veil are some of his novels. His best novel is Of Human Bondage. It is a study in frustration, which had a strong autobiographical element.
Kingsly Amis’s Lucky Jim, Take a Girl like You, One Fat Englishman, and Girl are notable works in the twentieth century.
The Nightingale and the RoseCRITICAL EVALUATION
“The Nightingale and the Rose
CRITICAL EVALUATION
🌷🌷🌷💝💝💝💝🌷🌷🌷🌷
Abstract: Wilde’s parodic fairy tale The Nightingale and the Rose is often considered a critical enigma due to its artistic ambiguity. The teller himself has restricted his tale to ‘childlikepeople between eighteen and eighty’. The target population of this study consists of fifteen year old students who are embarking on the path of appreciating literature in Sri Lanka and the tale is contained in their anthology. It is a rich artifact due to its dexterity of plot, multiple themes, dramatics and the powerful poetics in the discourse. Analyzing the short story, which has intricate motifs woven into its fabric, this study depicts it as an aesthetic experiment with an inherent transformative power. Yet pedagogic caution is a requisite as Wilde himself has stated that the tale has ‘many secrets, many meanings and many answers’ embedded in it. Judicious analysis of Wilde’s tale will make the young adults explore some age relevant secrets, meanings and answers while discovering the beauty of his art.
Targeted Generation as Young Students:
Students are novices to the art of Appreciation of English Literary Texts which is the title of their anthology. Wilde though he classifies The Nightingale and the Rose as a fairy tale states that is not for children, but for ‘childlike people from eighteen to eighty. Thus this population is still short of three years to be eligible. But they are young adults and will abhor the stratification: children. They are ‘childlike people’ who are at the threshold of the transient period of adolescence when a child develops into an adult. Should The Nightingale and the Rose gain entry to their anthology?
Answering in the affirmative this study argues that the short story has a multitude of merits which makes it excellent raw material for embarking on the process of appreciation of the genre: short story. The aptness for the age group lies in the tightness of the plot, the powerful symbolism, vivid imagery, the economy and the beauty of language, the thematic value and the entailed social criticism. It is a perfect specimen for detecting the qualities of a good short story.
The reality is that the modern teenage girl would hate to sit ‘winding blue silk on a reel’. There is no need as they buy their clothes and other paraphernalia off the rack. Such leisurely activity adds a ‘once upon a time’ touch to The Nightingale and the Rose in the context of the modern young reader, 127 years after its publication. But the symbolism transcends time. Girls still engage in, at this age of equal gender rights, trivial feminine activities which boys would not dream of doing. The majority of them are feminine feminists.
Analyzing other characteristics of the daughter of the Professor sharpen their world view. They would agree that guys, or even girls if you are not interested in them should be told off, not encouraged. But the callousness of the way the girl did it and the reasons spelt out and rubbed in would not receive approval of the majority. True appreciation of the short story will create awareness of the materialism, class consciousness and false values based on appearances in the daughter of the Professor. Evidence for all these human weaknesses exists around them but such awareness creation would lead to self-questioning: am I going to be tainted by such negative values? They learn to not only identify but also critically evaluate prevailing attitudes and values in the contemporary society.
You will find many a young boy smugly carrying one for his lady love. But a red rose does not necessarily beget love. These youthful readers, whether male or female, are taught the consequences of unrequited love: disillusionment and frustration. The Student mishandling rejection will make them probe alternate ways where they need not turn into a recluse. They will also estimate that discarding Love as a silly thing after rejection is, in their own terminology, ‘sour grapes’. Most importantly they will learn to discern between true love and infatuation.
The manner in which the Student resolves to shut himself up with dusty tomes of knowledge might give rise to many a parallel. It reflects a very modern affliction the young generation suffers from: reclusiveness. In search of emotional and physical isolation it might not be dusty books they seek. Instead alienating themselves from the problems of the world outside can occur in the form of addiction to and seeking refuge in various forms of building barriers between you, your family and the world outside. Is resorting to reclusiveness on the rebound a solution? Let them find answers.
Furthermore the most enthralling aspect of the short story is it’s the open ended finale. This age group will grapple with the above and a multitude of other questions. Did the Nightingale sacrifice its life in vain? Should she have let her heart rule over her head? Is love better than life, as the Nightingale believed? Thus as evidenced above for the student who is taking the first steps towards the appreciation of the genre of short story Wilde’s The Nightingale and the Rose is a unique experience.
de Medeiros and Gomes (2015)[5] state that until 1860, the fairy tales published in Britain (for example collections by Hans Andersen, and brothers Grimm) had a clear didactic function to preach the values and ideals of Victorian society, which included earnestness, virtue, hard work, propriety, and restraint. Many scholars consider that The Nightingale and the Rosehas a dissident function and posit that it falls within the genre of parodic fairy tales. Zipes (2007) [9]identifies one distinctive quality which makes a literary work acquire the nuances of a fairy tale. In a fairy tale,
The characters, settings, and motifs are combined and varied according to specific functions to induce wonder.
Moreover Tolkien (1983, p. 113) [10] states that the characters in a fairy tale need not be restricted to ‘fairies or elves’. The fairy tale quality is often generated with talking animals and plants, and even ‘ourselves, mortal men, when we are enchanted’ (ibid). In sum the sense of wonder and enchantment woven into a short story and the inclusion of magical talking plants and animals add a fairy tale quality to it distinguishing it from other modern short literary genres.
The Nightingale and the Rose may not have ‘fairies or elves’ but within the setting of the garden talking animals and plantsbewitch, especially, the young reader. Equally enthralling is the creation of the rose which is sheer magic. Thus Wilde’s craft adds a fascination which is generally created within the genre of fairy tales. But the magic has a short life within the story. The semantics in the verbal exchanges of the animals and plantsand their character traits lift them above mundane personifications. They have many human weaknesses. This turns the garden to a thing unrelated to the canon of fairy tales.
The Lizard is a cynic, the Daisy has cultivated mannerisms, and theOak-tree has feelings as it ‘was very fond of the little Nightingale’ but though it understood the gravity of the Nightingale’s decision it passively accepts it and hastily bids a farewell: 'I shall feel very lonely when you are gone.' Wilde himself has declared that there is the ‘other half of the garden’ where rather than enchantment the reader will find ‘suffering and sorrow’ (Wilde 2005: 349)[11]. Thus The Nightingale and the Rose is not the archetypal fairy tale. It is raised to a higher form of art through the use of parody.
Parody can be defined as deliberately copying a style of something to create amusement through ridicule. Parody need not be limited to ridicule. According to Hutcheon (2000: 54), [12] ‘parody can use irony easily and naturally as a preferred, even privileged, rhetorical mechanism’. Wilde uses the genre of fairy tale but he converts his storyline into a parody not only by the removal of enchantment from the garden but also subverting the happy ending habitually associated with fairy tales.
Agreement comes from de Medeiros and Gomes(2015: 30) [13] who state that,
The lack of a happy ending in the short story both work to promote Wilde’s parodic intent towards the fairy-tale tradition and to strengthen the social criticism towards a materialistic and utilitarian society.
Thus discarding ridicule Wilde’s narrative style prefers the rhetorical mechanism of irony and flavours it with wit. He imitates the fairy-tale tradition but uses ironic inversion flouting its norms. Irony is generated through the description of youthful life in Victorian England. It is denoted as based on false values. Even the pursuit of higher knowledge is parodied by Wilde. Utilitarian values win over genuine emotions. Wilde makes the Nightingale possess the higher human qualities: compassion, true love and sacrifice claiming that she is the only one worthy of Romance.
Additionally ironic inversion of the fairy-tale tradition of a handsome prince and beautiful princess enhance the parodic excellence in Wilde. The character of the daughter of the Professor is devoid of physical description. Unlike the sweet, docile princesses in fairy-tales she is sharp tongued, cold and calculating. The macho prince is reduced to a weeping imbecile. Wilde also seems to explore the stereotypical gender roles in his society through the Student and the girl. Her father is a learned professor and the only other male in the narrative, his student is a budding scholar of Philosophy and Metaphysics. She is given the conventional tasks of winding thread, dancing ‘so lightly that her feet will not touch the floor’, and thriving among admiring courtiers. Thus unlike in traditional fairy-tales Education is brought in as a theme by Wilde but it is parodied as it brings out the gender bias and forecasts a pessimistic outcome of knowledge.
Similarly the target population is fortunate to receive a balanced education where one aesthetic subject is compulsory. This will caution the learners against completely assenting to Wilde’s parody of education which is suited to a society of bygone times.
Furthermore a clear subversion of the fairy tale genre is yet again evidenced in the radical outcome of the short story. According to Pihlström (2014: 43)[14],
When children are gradually initiated into moral thinking- for example- through traditional fairy tales- they usually learn that the good will eventually be rewarded and the bad ‘will get what they deserve’. The protagonist in a fairy tale typically gets a reward for a morally heroic action, while the villains are punished or destroyed.
However according to Bushakevitz (2009: 103) [15]Wilde’s tale does not subscribe to the above traditional moral thinking introduced by fairy tales.
In The Nightingale and the Rose, good is not rewarded nor is evil punished. The fact that the professor’s daughter does not accept the student’s offer of the rose cannot be viewed as a punishment for the student, since his reaction to the rejection demonstrates that his ‘love’ of the girl was insignificant even to him. It would have been a reward for the nightingale had the girl accepted the rose, but this does not happen.
In sum through these subversions Wilde not only parodies the genre of classical fairy tale but uses it as a vehicle for ‘his elegant style and keen wit to give full expression both to his philosophy of art and his critique of English high society’ (Zipes, 2007, p. 167) [16]. Additionally, through the deft use of his craftsmanship Wilde has been able to lift the prose away from the boundaries of English society in the Victorian era as much of the social satire can be extended to many a society in the contemporary society.
The Plot Development
The fine art of plot development in a short story where language should be economical yet retain its beauty reaches its perfection in The Nightingale and the Rose.
Exposition
At the beginning of the exposition using a flashback the author introduces the main conflict. The Student is attracted to his professor’s daughter and she has asked for a red rose to dance with him. It is not a demand which can be fulfilled as the Student says ‘in my entire garden there is no red rose’. The inability to find a rose makes his beautiful eyes’ fill with tears and decide that his life is ‘wretched’. Thus the conflict is introduced with great economy of language.
2.3 Rising Action
Across each stage of the Rising Action the story moves swiftly while attaining a magical quality.
2.3.1 Entry of the Nightingale and his empathy with the Student
The Nightingale hears the Student weeping and judges him to be genuinely in love and states ‘Here at last is a true lover’. He listens to the lamentation of the Student. A flash forward is used in this instance to create a powerful juxtaposed imagery of the ballroom scene through the eyes of the Student which given in Table 1 below.
Student’s predicament in a flash forward
If I have a red rose
‘I shall hold her in my arms, and she will lean her head upon my shoulder, and her hand will be clasped in mine.’
If I do not have a red rose
‘I shall sit lonely, and she will pass me by. She will have no heed of me, and my heart will break’.
Based on the outward demonstration of grief by the Student the Nightingale concludes, 'Here indeed is the true lover'.Another flash forward where the Student’s words vividly describe the girl and visualize his plight at the ball is juxtapoed in Table II below.
At the ball
The girl at the ball
‘My love will dance to the sound of the harp and the violin. She will dance so lightly that her feet will not touch the floor, and the courtiers in their gay dresses will throng round her.’
The Student’s plight
‘But with me she will not dance, for I have no red rose to give her'.
The dramatic quality of the narrative intensifies as the Nightingale watches the Student flinging ‘himself down on the grass’, buries ‘his face in his hands’ and weeps.
2.3.2 Other animals in the garden
During the next stage of rising action the story reaches its pinnacle in parodic fairy tale quality. Each animal is personified and given specific human qualities.
The Daisy is demure, ladylike and ‘whispers’ in a ‘soft, low voice’.
The opposite is found in the inquisitive Butterfly who is engaged in the useless activity of ‘fluttering about after a sunbeam’. Here Wilde seems to be creating associations with a hyperactive social butterfly who is flitting around at a social gathering.
They are scornful about the reason for the Student’s weeping and together they express their disdain by stating: 'how very ridiculous!’
The Lizard who runs ‘with his tail in the air’ is ‘a cynic’ and he ‘laughed outright’ demonstrating no qualms about flouting social etiquette.
Though the talking animals add to the fairy tale quality of the short story the technique used by Wilde makes it a social gathering of personifications, each decked with a stereotypical human weakness.
2.3.3 The Nightingale and the red rose tree
Not discouraged by her encounter with the animals in the garden the Nightingale decides to help the Student and approaches the rose trees in the garden. Finally she finds a red rose tree. But it says that the harsh winter ‘has chilled my veins, and the frost has nipped my buds, and the storm has broken my branches’.
When asked for a method of getting a red rose the tree states 'but it is so terrible that I dare not tell it to you.' Here a very human trait is hinted at by the author. It is human nature to pretentiously prewarn a destructive action especially if you are going to benefit out of it. It clears one’s conscience. The rose tree knows that she ‘shall have no roses at all this year' thus this is a good opportunity to fulfil its desire to bloom. The moment the Nightingale says 'Tell it to me' the veneer of concern is shed making it a false social requirement. The tree does not need much persuasion and unemotionally gives step by step details of the dreadful way a red rose could be created. The change of tone in diction of the rose tree moves from dissuasion to authoritative.
• 'You must build it out of music by moonlight, and stain it with your own heart's-blood.
• You must sing to me with your breast against a thorn. All night long you mustsing to me by moonlight.
• All night long you must sing to me, and the thorn must pierce your heart, and your life-blood must flow into my veins, and become mine.'
The diction of the rose tree is full of imperatives; a cold blooded description of a process. Here too the personification is not restricted to the ability to talk. The insistent must repeated at each step in the lines above shows an eagerness for very detail in the process to be perfected. No camouflaging of the suffering involved is indicated throughout and at the climax of the pain ‘your life-blood must flow into my veins, and become mine’ is clearly stated by the rose tree.
Thus the Nightingale is made fully aware of the severity of pain and the length of suffering. But she decides to sacrifice her life. Then during the very act of the sacrifice the increasing eagerness and the selfishness of the rose tree are strongly conveyed by the repetition of the line below.
'Press closer, little Nightingale,' cried the Tree, 'or the day will come before the rose is finished.'
Under the façade of helping the Nightingale the rose tree keeps spurring her on to fulfil the deed and the finale is reached when the rose tree exclaims joyously,
'Look, look!’ ..... 'The rose is finished now'
Devoid of any regret on the destruction of the life of the Nightingale the rose tree victoriously announces to the world the attainment of her goal. This is a very human weakness: triumphant self-declarations which reek of personal glorification with no recognition given to the weighty contribution made by others. Thus the personified rose tree is yet again a vehicle to make the reader become conscious of human weaknesses.
Climax
The climax of the story is reached when the Nightingale sacrifices herself. The gradual death and the birth of the red rose are vividly described. The increasing pain of the Nightingale keeps time with the increased tempo of her song which ironically is a celebration of eternal love as depicted in the lines below.
‘Bitter, bitter was the pain, and wilder and wilder grew her song, for she sang of the Love that is perfected by Death, of the Love that dies not in the tomb’.
Important English Literature Terms
*IMPORTANT ENGLISH LITERATURE TERMS*
⏩Melodrama:-A highly sensational drama with happy ending. Example ‘The Spanish Tragedy’ –Kyd.
⏩Metaphysical Poetry:-Meta means beyond and physical is related to body .
⏩Mock-epic:-It is a long satirical poem dealing with a trivial theme. Example: “The rape of the lock”-Alexander Pope.
⏩Metaphor:-A metaphor is an implicit comparison between two different things.
⏩Metre:-The recurrence of similar stress pattern in some lines of a poem.
⏩Novel:-is a long prose narrative fiction with plot characters etc.
⏩Novelette:-is longer than a short story and shorter than a novel.
⏩Ode:-is a long narrative poem of varying, line length dealing with serious subject matter.
⏩Objectivity:-We have objectivity in a literary piece when the author focuses on an object from broadened point of view.
⏩Octave:-is the firs part of Italian sonnet.
⏩Oxymoron:-is apparently a physical contrast which oddly makes sense on a deeper level.
⏩Prologue:-is the beginning part of a novel or a play or a novel.
⏩Prose:-Any material that is not written in a regular meter like a poetry.
⏩Prosody:-Prosody is the mechanics or grammar of verse.
⏩Protagonist:-Protagonist is the main character in a literary work
⏩Plot:-The arrangement of incidents is called plot.
⏩Pun:-A pun is playing with words.
⏩Periods of English literature:-The Anglo-Saxon, Middle English Renaissance, Restoration, Neoclassical Romantic, Victorian, Modern, Post-Modern.
⏩Romanticism:-was a literary movement. It stands Opposite to reason and focuses on emotion.
⏩Rhetoric:-Rhetoric is the art of persuasive argument through writing.
⏩Symbol:-A symbol is anything that stands for something else.
⏩Sonnet:-is a lyric poem consisting of fourteen rhymed lines dealing with a lofty theme.
⏩Satire:-is ridiculing the vices and follies of an individual or a society with a corrective design. E.g. “The rape of the lock”---Pope.
⏩Short-story:-A short story is a prose narrative considerable length. It is shorter than a novel.
⏩Stanza:-is a group of verses having a rhyme scheme pattern.
⏩Subjectivity:-We find subjectivity in a literary work in which the writer’s personal intrusion takes place.
⏩Soliloquy:-It means speaking alone when in a play a character is found speaking alone on the stage it is called soliloquy.
⏩Ballad= a kind of short narrative poem.
⏩Blank verse= Having no rhyming end.
⏩Blue print= final documents having received finished touches.
⏩Canto= A subdivision of an epic or narrative poem.
⏩Elegy= Song of lamentation.
⏩Epic= A long poem
⏩Epilogue= A poem or speech at the end of play.
⏩Epitaph= words that are said about dead person.
⏩Eulogy= Speech or writing i praise of a person.
⏩Fairy talk= folk literature.
⏩Fantasy = an imaginary story.
⏩Hymn=song praise of god.
⏩Jargon= A mixture of two or more language .
⏩Lyric= A poem that could be sung.
⏩Opera= A musical drama.
⏩Parody= Imitation of a poem or writings.
⏩Sonnet= A poem of fourteen lines.
Monday, 20 April 2020
معلومات پاکستان
*معلوماتی دُنیا 89*
*پیارا پَاکِســــــــــــتان*
*پاکستان کے بارے میں اہم معلومات*
🇵🇰 *پاکستان کا نام جنوری 1933 میں چوہدری رحمت علی گُجّر نے تجویز کیا تھا.*
*🇵🇰 پاکستان کے قیام کا اعلان 3 جون 1947 کو ہوا تھا.*
*🇵🇰 پاکستان اقوامِ متحدہ کا رکن 30 ستمبر 1947 کو بنا تھا.*
*🇵🇰 پاکستان کا پہلا سِکّہ 3 جون 1948 کو جاری ہوا تھا.*
🇵🇰 *پاکستان کا پہلا ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948 کو جاری ہوا تھا.*
🇵🇰 *اِسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت 1960 میں بنایا گیا تھا.*
🇵🇰 *پاکستان کا پہلا ٹی وی سٹیشن 24 نومبر 1964 کو قائم ہوا.*
🇵🇰 *پاکستان رَیڈ کراس سِوسائٹی کا نام بدل کر 1974 میں ہِلالِ اَحمر رکھا گیا.*
🇵🇰 *پاکستان نے 28 مئی 1998 کو چاغی بلوچستان کے مقام پر چھے ایٹمی دھماکے کئے.*
🇵🇰 *پاکستان کا جھنڈےکا نمونہ قائدِ اعظم نے بنایا۔*
🇵🇰 *پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں موسم کی نوعیت بدلتی رہتی ہے، یہاں چاروں موسموں کا لطف لیا جا سکتا ہے ۔ اگر گرمی کی حِدت 55 ڈگری تک جاتی ہے تو سردی کی شدت 22 منفی تک ہو جاتی ہے.*
🇵🇰 *ہمارے پاس ضلع جہلم میں دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے جو تقریبا 20 کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے، اور یہ نمک بھی خالص ترین نمک ہے، کھیوڑہ کے نام سے یہ جگہ دنیا بھر میں جانی پہچانی جاتی ہے.*
🇵🇰 *جدید ترین جائزے کے مطابق ہمارے پیارے صوبہ بلوچستان میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں.*
🇵🇰 *ہماری سرزمین سے چونے کا پتھر جو سیمنٹ بنانے کے کام آتا ہے ۔سب سے زیادہ نکلتا ہے، اس سے بننے والا سیمنٹ کسی بھی طرح معیار میں کم نہیں.*
🇵🇰 *ہمارے صوبے بلوچستان کے جنگلات میں صنوبر اور چیڑ کے درختوں کی ایسی اقسام ہیں جو دنیا میں اور کہیں نہی مِلتیں.*
🇵🇰 *مارکو پولو نامی بھیڑ صرف پاکستان کے شمالی علاقوں میں ملتی ہے.*
🇵🇰 *انتہائی خوبصورت پرندہ تلور صرف صحرائے بلوچستان میں ملتا ہے۔*
🇵🇰 *سنگ چُور نامی دنیا کا سب سے زیادہ زہریلا سانپ صرف پاکستان میں ہی پایا جاتا ہے ۔*
🇵🇰 *دنیا میں سب سے میٹھے اور لذیذ آم شجاع آباد پاکستان کے مانے جاتے ہیں۔*
🇵🇰 *دنیا کا سب سے اعلیٰ نہری نظام صرف پاکستان کا ہے ۔*
🇵🇰 *دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل تربیلا جھیل ہے ۔*
🇵🇰 *پنکھوں کی سب سے بڑی صنعت ہمارے شہروں گوجرانوالہ اور گجرات ہے ۔*
🇵🇰 *لکڑی کے مشہور و معروف فرنیچر کیلئے ہمارا شہر چنیوٹ مشہور ہے.*
🇵🇰 *دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ٹھٹھہ میں ہے ۔*
🇵🇰 *دنیا کا سب سے انوکھا منفرد اور دلچسپ نام کا شہر دوڑ بھی پاکستان کے صوبہء سندھ میں واقع ہے.*
🇵🇰 *دنیا میں کھیل کود کے سامان کی سب سے بڑی صنعت سیالکوٹ میں ہے.*
🇵🇰 *دنیا کی چوڑیوں کی سب سے بڑی صنعت پاکستان کے شہر حیدرآباد میں ہے.*
🇵🇰 *موہنجو داڑو کی کھدائی سے حاصل ہونے والی تختیوں کی تحریر آج تک پڑھی نہیں جا سکیں ۔*
*جبکہ اور جتنی بھی تہذیبیں دریافت ہوئیں انکی تحریریں پڑھی گئیں*
🇵🇰 *ایدھی ایمبولینس سروس دنیا کی انفرادی ایمبولینس سروس ہے جو 600 ایمبولینس گاڑیوں پر مشتمل ہے ۔*
🇵🇰 *دنیا کا سب سے بڑا فٹبال سیالکوٹ میں بنایا گیا 2002 میں اسکا قطر 4 میٹر تھا ۔*
🇵🇰 *دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 بھی پاکستان میں واقع ہے۔*
🇵🇰 *دنیا کی سو میں سے چالیس بلند ترین چوٹیاں Concordia کے مقام پر پاکستان میں واقع ہیں جنکو چاند پر سے بھی دیکھا جا سکتا یے۔*
🇵🇰 *دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمالیہ , قراقرم اور ہندوکش بھی پاکستان میں ملتے ہیں۔*
🇵🇰 *دنیا میں گہرے پانی کی سب سے بڑی اور اہم بندرگاہ گوادر بھی پاکستان میں واقع ہے۔*
🇵🇰 *ڈائنوسار کا مکمل اور قدیم ترین ڈھانچہ بھی پاکستان میں چکوال کے علاقے سے دریافت ہوا۔*
🇵🇰 *دنیا کی بلند ترین شاہراہ شاہراہِ قراقرم بھی پاکستان میں واقع ہے۔*
*🇵🇰دنیا میں دوسری بلند ترین سطع مرتفع دیوسائی بھی پاکستان میں واقع ہے۔*
*🇵🇰 پاکستان کے سندھ طاس ڈیلٹا پنجاب کا خطہ دنیا کے ذرخیز ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔*
*🇵🇰 اسلامی ممالک میں نمبر ایک اور دنیا میں چھٹی سب سے بڑی فوجی طاقت بھی پاکستان کی ہے۔*
*🇵🇰پاکستان پاٸندہ باد🇵🇰*
اردو زبان
*اردو زبان کے چند اہم قوائد و تعریفات*
*حمد* : نظم جس میں اللہ کی تعریف ہو
*نعت* : رسول اکرم ص کی تعریفی نظم
*قصیدہ/منقبت* : کسی بھی شخصیت کی توصیفی نظم
*مثنوی* :چھوٹی بحر کی نظم جسکے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر شعر کا قافیہ الگ ہو۔
*مرثیہ* : موت پہ اظہارِ رنج کی شاعری کی نظم
*غزل* : عورتوں کی شاعری عشق، حسن و جمال و ہجر و فراق پہ شاعری
*نظم*: ایک ہی مضمون والی مربوط شاعری
*قطعہ*: بغیر مطلع کے دو یا دو سے ذیادہ اشعار جس میں ایک ہی مضمون کا تسلسل ہو
*رباعی*: چار مصرعوں کی نظم جسکا پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوں۔
*مخمس*: وہ نظم جسکے بند پانچ پانچ مصرعوں کے ہوں
*مسدس*: وہ نظم جسکے ہر بند کے چھے مصرعے ہوں
*داستان*: کہانی کی قدیم قسم
*ناول*: مسلسل طویل قصہ جس کاموضوع انسانی زندگی ہو اور کردار متنوع ہوں
*افسانہ*: مختصر کہانی
*ڈرامہ* : کہانی جسکو اسٹیج پہ کرداروں کی مدد سے پیش کیا جائے
*انشائیہ*: ہلکا پھلکا مضمون جس میں زندگی کے کسی موضوع کو لکھا جائے
*خاکہ*: کسی شخصیت کی مختصر مگر جامع تصویر کشی
*مضمون*: کسی معین موضوع پہ خیالات و محسوسات
*آپ بیتی*: خود نوشت و سوانح عمری
*سفر نامہ*: سفری واقعات و مشاہدات
*مکتوب نگاری*: خط لکھنا
*سوانح عمری*: کسی عام یا خاص شخص کی حیات کا بیانیہ بتفصیل.......
*اسم نکرہ کا مفہوم*-
وہ اسم جو غیر معین شخص یا شے (اشخاص یا اشیا) کے معانی دے اسم نکرہ کہلاتا ہے ــ
یا
وہ اسم جو کسی عام جگہ، شخص یا کسی چیز کے لئے بولا جائے اسم نکرہ کہلاتا ہے اس اسم کو اسم عام بھی کہتے ہیں۔
*اسم نکرہ کی اقسام*
اسم ذات
اسم حاصل مصدر
اسم حالیہ
اسم فاعل
اسم مفعول
اسم استفہام
*اسم ذات* اُس اسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی چیز کی تمیزدوسری چیزوں سے کی جائے۔
یا
وہ اسم جس میں ایک چیز کی حقیقت یا اصلیت کو دوسری چیز سے الگ سمجھا جائے اسم ذات کہلاتا ہے۔
*اسم ذات کی مثالیں*
1۔ قلم، دوات 2۔ صبح، شام 3۔ ٹیلی فون، میز 4۔ پروانہ، شمع 5۔ بکری، گائے 6۔ پنسل، ربڑ 7۔ مسجد، کرسی 8۔ کتاب، کاغذ 9۔ گھڑی،دیوار 10۔ کمپیوٹر، ٹیلی ویژن وغیرہ
*اشعارکی مثالیں*
زندگی ہو میرے پروانہ کی صورت یارب علم کی شمع سے ہومجھ کو محبت یارب
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمریوں ہی تمام ہوتی ہے
*اسم ذات کی اقسام*
1۔ اسم تصغیر 2۔ اسم مکبر 3۔ اسم ظرف 4۔ اسم آلہ 5۔ اسم صوت
*1۔اسم تصغیر ( اسم مصغرکا مفہوم)*
وہ اسم جس میں کسی نام کی نسبت چھوٹائی کے معنی پائے جائیں اسم تصغیر یا اسم مصغر کہلاتا ہے۔
یا
*اسم تصغیر* وہ اسم ہے جس میں چھوٹا ہونے کے معنی پائے جائیں تصغیر کے معنی چھوٹا کے ہیں۔
یا
*اسم تصغیر* وہ اسم ہے جس میں کسی چیز کا چھوٹا ہونا ظاہرہو۔
*اسم تصغیریا اسم مصغرکی مثالیں*
گھر سے گھروندا، بھائی سے بھیا، دُکھ سے دُکھڑا، صندوق سے صندوقچہ، پنکھ سے پنکھڑی، دَر سے دَریچہ وغیرہ
*2۔اسم مکبر*
وہ اسم ہے جس میں کسی چیز نسبت بڑائی کے معنی پائے جائیں اسم مکبر کہلاتا ہے۔
یا
*اسم مکبر* وہ اسم ہے جس میں بڑائی کے معنی پائے جائیں، کبیر کے معنی بڑا کے ہوتے ہیں۔
یا
*اسم مکبر* اس اسم کو کہتے ہیں جس میں بڑائی کے معنی ظاہر ہوں۔
*اسم مکبر کی مثالیں*
لاٹھی سے لٹھ، گھڑی سے گھڑیال، چھتری سے چھتر، راہ سے شاہراہ، بات سے بتنگڑ، زور سے شہ زور وغیرہ
*3۔اسم ظرف*
اسم ظرف اُس اسم کو کہتے ہیں جو جگہ یا وقت کے معنی دے۔
یا
ظرف کے معنی برتن یا سمائی کے ہوتے ہیں، اسم ظرف وہ اسم ہوتا ہے جو جگہ یا وقت کے معنی دیتا ہے۔
*اسم ظرف کی مثالیں*
باغ، مسجد، اسکول۔ صبح، شام، آج، کل وغیرہ
*اسم ظرف کی اقسام*
اسم ظرف کی دو اقسام ہیں
اسم ظرف زماں
اسم ظرف مکاں
*1۔اسم ظرف زماں*
اسم ظرف زماں وہ اسم ہوتا ہے جو کسی وقت (زمانے) کو ظاہر کرے
یا
ایسا اسم جو وقت یا زمانے کے معنی دے اسم ظرف زماں کہلاتا ہے۔
*اسم ظرف زماں مثالیں*
سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، دن، رات، صبح، شام، دوپہر، سہ پہر، ہفتہ، مہینہ، سال، صدی، آج، کل، پرسوں، ترسوں وغیرہ
*2-اسم ظرف مکاں*
اسم ظرف مکاں وہ اسم ہے جو جگہ یا مقام کے معنی دے۔
یا
وہ اسم جو کسی جگہ یا مقام کے لئے بولا جائے اُسے اسم ظرف مکاں کہتے ہیں۔
*اسم ظرف مکان کی مثالیں*
مسجد، مشرق، میدان، منڈی، سکول، زمین، آسمان، مدرسہ، وغیرہ
*4۔اسم آلہ*
اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو۔
یا
*اسم آلہ* وہ اسم ہے جو کسی آلہ یا ہتھیار کے لئے بولا جائے۔
یا
*اسم آلہ* اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو، آلہ کے معنی اوزار یا ہتھیار کے ہوتے ہیں۔
*اسم آلہ کی مثالیں*
گھڑی، تلوار، چُھری، خنجر، قلم، توپ، چھلنی وغیرہ
*5۔اسم صوت*
وہ اسم جو کسی انسان، حیوان یا بے جان کی آواز دے اسم صوت کہلاتا ہے۔
یا
*اسم صوت* وہ اسم ہے جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے۔
یا
ایسا اسم جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے اسم صوت کہلاتا ہے، صوت کے معنی آواز کے ہوتے ہیں۔
*اسم صوت کی مثالیں*
کُٹ کُٹ مرغی کی آواز، چوں چوں چڑیا کی آواز، غٹرغوں کبوتر کی آواز، ککڑوں کوں مرغے کی آواز، کائیں کائیں کوے کی آواز وغیرہ
*2۔اسم حاصل مصدر*
ایسا اسم جو مصدر سے بنا ہو اور جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو مصدرنہ ہو لیکن مصدر کے معنی دے حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں یعنی جو مصدر کی کیفیت کو ظاہر کرے اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
*اسم حاصل مصدر کی مثالیں*
مثلاً: چہکنا سے چہک، ملنا سے ملاب، پڑھنا سے پڑھائی، چمکنا سے چمک، گبھرانا سے گبھراہٹ، پکڑنا سے پکڑ، چمکنا سے چمک، سجانا سے سجاوٹ وغیرہ۔
*3۔اسم حالیہ*
اسم حالیہ اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی فائل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرے۔
*اسم حالیہ کی مثالیں*
ہنستا ہوا، ہنستے ہنستے، روتا ہوا روتے روتے، گاتا ہوا، ٹہلتا ہوا، مچلتا ہوا، دوڑتا ہوا،
*4۔اسم فائل*
ایسا اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اسم فائل کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کی جگہ استعمال ہو اسم فائل کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اور مصدر سے بنے اسم فائل کہلاتا ہے۔
*اسم فاعل کی مثالیں*
لکھنا سے لکھنے والا، دیکھنا سے دیکھنے والا، سننا سے سننے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، رونا سے رونے والا وغیرہ۔
*عربی کے اسم فاعل*
اُردو میں عربی کے اسم فاعل استعمال ہوتے ہیں، جو عربی کے وزن پر اتے ہیں۔
*مثالیں*
عالم (علم والا)، قاتل (قتل کرنے والا)، حاکم (حکم دینے والا) وغیرہ۔
*فارسی کے اسم فاعل کی مثالیں*
باغبان، ہوا باز، کاریگر، کارساز، پرہیز گار وغیرہ۔
*اسم فائل کی اقسام*
اسم فائل کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں
اسم فاعل مفرد
اسم فائل مرکب
اسم فائل قیاسی
اسم فائل سماعی
*1۔ اسم فائل مفرد*
اسم فائل مفرد وہ اسم ہوتا ہے جو لفظِ واحد کی صورت میں ہو لیکن اُس کے معنی ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوں۔
*مثالیں*
ڈاکو( ڈاکا ڈالنے والا)، ظالم (ظلم کرنے والا)، چور (چوری کرنے والا)، صابر (صبر کرنے والا)۔ رازق (رزق دینے والا) وغیرہ
*2۔ اسم فائل مرکب*
ایسا اسم جو ایک سے زیادہ الفاظ کے مجموعے پر مشتمل ہو اسے اسم فائل مرکب کہتے ہیں۔
*مثالیں*
جیب کترا، بازی گر، کاریگر، وغیرہ
*3۔ اسم فائل قیاسی*
ایسا اسم جو مصدر سے بنے اُسے اسم فائل قیاسی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا، آنا سے آنے والا، دوڑنا سے دوڑنے والا وغیرہ
*4۔ اسم فائل سماعی*
ایسا اسم فائل جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو، بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو، اُسے اسم فائل سماعی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
شتربان، فیل بان، گویا، بھکاری، جادو گر، گھسیارا، پیغامبر، وغیرہ
*فاعل اور اسم فاعل میں فرق*
*1-فاعل*
فاعل ہمیشہ جامد اور کسی کام کرنے والے کا نام ہوتا ہے
*مثالیں*
حامد نے اخبار پڑھا، عرفان نے خط لکھا امجد نے کھانا کھایا، اِن جملوں میں حامد، عرفان اورامجد فاعل ہیں۔
*2-اسم فاعل*
اسم فاعل ہمیشہ یا تو مصدر سے بنا ہوتا ہے۔
*مثالیں*
لکھنا سے لکھنے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا یا پھر اس کے ساتھ کوئی فاعلی علامت پائی جاتی ہے۔ مثلا پہرا دار،باغبان، کارساز، وغیرہ
*5۔ اسم مفعول*
ایسا اسم جو اُس شخص یا چیز کو ظاہر کرے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو اسم مفعول کہلاتا ہے۔
یا
جو اسم کسی شخص، چیز یا جگہ کی طرف اشارہ کرے جس پر کوئی فعل یعنی کام واقع ہوا ہو اُسے اسم مفعول کہا جاتا ہے۔
*اسم مفعول کی مثالیں*
دیکھنا سے دیکھا ہوا، سونا سے سویا ہوا، رونا سے رویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، سُننا سے سُنا ہوا، وغیرہ۔
اللہ مظلوم کی مدد کرتا ہے، وقت پر بویا گیا بیج آخر پھل دیتا ہے، رکھی ہوئی چیز کام آجاتی ہے، اِن جملوں میں مظلوم، بویا ہوا، رکھی ہوئی اسم مفعول ہیں۔
*عربی کے اسم مفعول*
عربی میں جو الفاظ مفعول کے وزن پر آتے ہیں، اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
*مثالیں*
مظلوم، مقتول، مخلوق، مقروض، مدفون وغیرہ
اسم مفعول کی اقسام
اسم مفعول کی دو اقسام ہیں
اسم مفعول قیاسی
اسم مفعول سماعی
*1۔ اسم مفعول قیاسی*
ایسا اسم جو قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہو اسم مفعول قیاسی کہلاتا ہے۔
یا
ایسا اسم جو مقررہ قاعدے کے مطابق بنایا جائے اُسے اسم مفعول قیاسی کہتے ہیں اور اِس اسم کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے بعد لفظ ”ہوا“ بڑھا لیتے ہیں۔
*مثالیں*
کھانا سے کھایا ہوا، سونا سے سویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، رکھنا سے رکھا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، وغیرہ
*2۔ اسم مفعول سماعی*
ایسا اسم جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنے بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو اُسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔ سماعی کے معنی سنا ہوا کے ہوتے ہیں۔
یا
ایسا اسم جو کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو بلکہ جس طرح اہلِ زبان سے سنا ہو اسی طرح استعمال ہو اسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
دِل جلا، دُم کٹا، بیاہتا، مظلوم، وغیرہ
*فارسی کے اسم مفعول سماعی*
دیدہ (دیکھا ہوا)، شنیدہ (سنا ہوا)، آموختہ (سیکھا ہوا) وغیرہ
عربی کے اسم مفعول سماعی
مفعول کے وزن پر، مقتول، مظلوم، مکتوب، محکوم، مخلوق وغیرہ
*مفعول اور اسم مفعول میں فرق*
*1-مفعول*
مفعول ہمیشہ جامد ہوتا ہے اور اُس چیز کا نام ہوتا ہے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو۔
*مثالیں*
عرفان نے اخبار پڑھا، فصیح نے خط لکھا، ثاقب نے کتاب پڑھی، اِن جملوں میں اخبار، خط اور کتاب مفعول ہیں۔
*2-اسم مفعول*
اسم مفعول ہمیشہ قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہوتا ہے۔
*مثالیں*
سونا سے سویا ہوا، کھانا سے کھایا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا وغیرہ،
*عربی میں مفعول کے وزن پر آتا ہے*: مظلوم، مخلوق، مکتوب وغیرہ،
یا پھر
*فارسی مصدر سے بنتا ہے* جیسے شنیدن سے شنیدہ، آموختن سے آموختہ وغیرہ
*6۔ اسم استفہام*
اسم استفہام اُس اسم کو کہتے ہیں جس میں کچھ سوال کرنے یا معلوم کرنے کے معنی پائے جائیں۔
*اسم استفہام کی مثالیں*
کون، کب، کہاں کیسے، کیوں،*# اردو زبان کے چند اہم قوائد و تعریفات #*
*حمد* : نظم جس میں اللہ کی تعریف ہو
*نعت* : رسول اکرم ص کی تعریفی نظم
*قصیدہ/منقبت* : کسی بھی شخصیت کی توصیفی نظم
*مثنوی* :چھوٹی بحر کی نظم جسکے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر شعر کا قافیہ الگ ہو۔
*مرثیہ* : موت پہ اظہارِ رنج کی شاعری کی نظم
*غزل* : عورتوں کی شاعری عشق، حسن و جمال و ہجر و فراق پہ شاعری
*نظم*: ایک ہی مضمون والی مربوط شاعری
*قطعہ*: بغیر مطلع کے دو یا دو سے ذیادہ اشعار جس میں ایک ہی مضمون کا تسلسل ہو
*رباعی*: چار مصرعوں کی نظم جسکا پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوں۔
*مخمس*: وہ نظم جسکے بند پانچ پانچ مصرعوں کے ہوں
*مسدس*: وہ نظم جسکے ہر بند کے چھے مصرعے ہوں
*داستان*: کہانی کی قدیم قسم
*ناول*: مسلسل طویل قصہ جس کاموضوع انسانی زندگی ہو اور کردار متنوع ہوں
*افسانہ*: مختصر کہانی
*ڈرامہ* : کہانی جسکو اسٹیج پہ کرداروں کی مدد سے پیش کیا جائے
*انشائیہ*: ہلکا پھلکا مضمون جس میں زندگی کے کسی موضوع کو لکھا جائے
*خاکہ*: کسی شخصیت کی مختصر مگر جامع تصویر کشی
*مضمون*: کسی معین موضوع پہ خیالات و محسوسات
*آپ بیتی*: خود نوشت و سوانح عمری
*سفر نامہ*: سفری واقعات و مشاہدات
*مکتوب نگاری*: خط لکھنا
*سوانح عمری*: کسی عام یا خاص شخص کی حیات کا بیانیہ بتفصیل.......
*اسم نکرہ کا مفہوم*-
وہ اسم جو غیر معین شخص یا شے (اشخاص یا اشیا) کے معانی دے اسم نکرہ کہلاتا ہے ــ
یا
وہ اسم جو کسی عام جگہ، شخص یا کسی چیز کے لئے بولا جائے اسم نکرہ کہلاتا ہے اس اسم کو اسم عام بھی کہتے ہیں۔
*اسم نکرہ کی اقسام*
اسم ذات
اسم حاصل مصدر
اسم حالیہ
اسم فاعل
اسم مفعول
اسم استفہام
*اسم ذات* اُس اسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی چیز کی تمیزدوسری چیزوں سے کی جائے۔
یا
وہ اسم جس میں ایک چیز کی حقیقت یا اصلیت کو دوسری چیز سے الگ سمجھا جائے اسم ذات کہلاتا ہے۔
*اسم ذات کی مثالیں*
1۔ قلم، دوات 2۔ صبح، شام 3۔ ٹیلی فون، میز 4۔ پروانہ، شمع 5۔ بکری، گائے 6۔ پنسل، ربڑ 7۔ مسجد، کرسی 8۔ کتاب، کاغذ 9۔ گھڑی،دیوار 10۔ کمپیوٹر، ٹیلی ویژن وغیرہ
*اشعارکی مثالیں*
زندگی ہو میرے پروانہ کی صورت یارب علم کی شمع سے ہومجھ کو محبت یارب
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمریوں ہی تمام ہوتی ہے
*اسم ذات کی اقسام*
1۔ اسم تصغیر 2۔ اسم مکبر 3۔ اسم ظرف 4۔ اسم آلہ 5۔ اسم صوت
*1۔اسم تصغیر ( اسم مصغرکا مفہوم)*
وہ اسم جس میں کسی نام کی نسبت چھوٹائی کے معنی پائے جائیں اسم تصغیر یا اسم مصغر کہلاتا ہے۔
یا
*اسم تصغیر* وہ اسم ہے جس میں چھوٹا ہونے کے معنی پائے جائیں تصغیر کے معنی چھوٹا کے ہیں۔
یا
*اسم تصغیر* وہ اسم ہے جس میں کسی چیز کا چھوٹا ہونا ظاہرہو۔
*اسم تصغیریا اسم مصغرکی مثالیں*
گھر سے گھروندا، بھائی سے بھیا، دُکھ سے دُکھڑا، صندوق سے صندوقچہ، پنکھ سے پنکھڑی، دَر سے دَریچہ وغیرہ
*2۔اسم مکبر*
وہ اسم ہے جس میں کسی چیز نسبت بڑائی کے معنی پائے جائیں اسم مکبر کہلاتا ہے۔
یا
*اسم مکبر* وہ اسم ہے جس میں بڑائی کے معنی پائے جائیں، کبیر کے معنی بڑا کے ہوتے ہیں۔
یا
*اسم مکبر* اس اسم کو کہتے ہیں جس میں بڑائی کے معنی ظاہر ہوں۔
*اسم مکبر کی مثالیں*
لاٹھی سے لٹھ، گھڑی سے گھڑیال، چھتری سے چھتر، راہ سے شاہراہ، بات سے بتنگڑ، زور سے شہ زور وغیرہ
*3۔اسم ظرف*
اسم ظرف اُس اسم کو کہتے ہیں جو جگہ یا وقت کے معنی دے۔
یا
ظرف کے معنی برتن یا سمائی کے ہوتے ہیں، اسم ظرف وہ اسم ہوتا ہے جو جگہ یا وقت کے معنی دیتا ہے۔
*اسم ظرف کی مثالیں*
باغ، مسجد، اسکول۔ صبح، شام، آج، کل وغیرہ
*اسم ظرف کی اقسام*
اسم ظرف کی دو اقسام ہیں
اسم ظرف زماں
اسم ظرف مکاں
*1۔اسم ظرف زماں*
اسم ظرف زماں وہ اسم ہوتا ہے جو کسی وقت (زمانے) کو ظاہر کرے
یا
ایسا اسم جو وقت یا زمانے کے معنی دے اسم ظرف زماں کہلاتا ہے۔
*اسم ظرف زماں مثالیں*
سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، دن، رات، صبح، شام، دوپہر، سہ پہر، ہفتہ، مہینہ، سال، صدی، آج، کل، پرسوں، ترسوں وغیرہ
*2-اسم ظرف مکاں*
اسم ظرف مکاں وہ اسم ہے جو جگہ یا مقام کے معنی دے۔
یا
وہ اسم جو کسی جگہ یا مقام کے لئے بولا جائے اُسے اسم ظرف مکاں کہتے ہیں۔
*اسم ظرف مکان کی مثالیں*
مسجد، مشرق، میدان، منڈی، سکول، زمین، آسمان، مدرسہ، وغیرہ
*4۔اسم آلہ*
اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو۔
یا
*اسم آلہ* وہ اسم ہے جو کسی آلہ یا ہتھیار کے لئے بولا جائے۔
یا
*اسم آلہ* اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو، آلہ کے معنی اوزار یا ہتھیار کے ہوتے ہیں۔
*اسم آلہ کی مثالیں*
گھڑی، تلوار، چُھری، خنجر، قلم، توپ، چھلنی وغیرہ
*5۔اسم صوت*
وہ اسم جو کسی انسان، حیوان یا بے جان کی آواز دے اسم صوت کہلاتا ہے۔
یا
*اسم صوت* وہ اسم ہے جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے۔
یا
ایسا اسم جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے اسم صوت کہلاتا ہے، صوت کے معنی آواز کے ہوتے ہیں۔
*اسم صوت کی مثالیں*
کُٹ کُٹ مرغی کی آواز، چوں چوں چڑیا کی آواز، غٹرغوں کبوتر کی آواز، ککڑوں کوں مرغے کی آواز، کائیں کائیں کوے کی آواز وغیرہ
*2۔اسم حاصل مصدر*
ایسا اسم جو مصدر سے بنا ہو اور جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو مصدرنہ ہو لیکن مصدر کے معنی دے حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں یعنی جو مصدر کی کیفیت کو ظاہر کرے اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
*اسم حاصل مصدر کی مثالیں*
مثلاً: چہکنا سے چہک، ملنا سے ملاب، پڑھنا سے پڑھائی، چمکنا سے چمک، گبھرانا سے گبھراہٹ، پکڑنا سے پکڑ، چمکنا سے چمک، سجانا سے سجاوٹ وغیرہ۔
*3۔اسم حالیہ*
اسم حالیہ اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی فائل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرے۔
*اسم حالیہ کی مثالیں*
ہنستا ہوا، ہنستے ہنستے، روتا ہوا روتے روتے، گاتا ہوا، ٹہلتا ہوا، مچلتا ہوا، دوڑتا ہوا،
*4۔اسم فائل*
ایسا اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اسم فائل کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کی جگہ استعمال ہو اسم فائل کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اور مصدر سے بنے اسم فائل کہلاتا ہے۔
*اسم فاعل کی مثالیں*
لکھنا سے لکھنے والا، دیکھنا سے دیکھنے والا، سننا سے سننے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، رونا سے رونے والا وغیرہ۔
*عربی کے اسم فاعل*
اُردو میں عربی کے اسم فاعل استعمال ہوتے ہیں، جو عربی کے وزن پر اتے ہیں۔
*مثالیں*
عالم (علم والا)، قاتل (قتل کرنے والا)، حاکم (حکم دینے والا) وغیرہ۔
*فارسی کے اسم فاعل کی مثالیں*
باغبان، ہوا باز، کاریگر، کارساز، پرہیز گار وغیرہ۔
*اسم فائل کی اقسام*
اسم فائل کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں
اسم فاعل مفرد
اسم فائل مرکب
اسم فائل قیاسی
اسم فائل سماعی
*1۔ اسم فائل مفرد*
اسم فائل مفرد وہ اسم ہوتا ہے جو لفظِ واحد کی صورت میں ہو لیکن اُس کے معنی ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوں۔
*مثالیں*
ڈاکو( ڈاکا ڈالنے والا)، ظالم (ظلم کرنے والا)، چور (چوری کرنے والا)، صابر (صبر کرنے والا)۔ رازق (رزق دینے والا) وغیرہ
*2۔ اسم فائل مرکب*
ایسا اسم جو ایک سے زیادہ الفاظ کے مجموعے پر مشتمل ہو اسے اسم فائل مرکب کہتے ہیں۔
*مثالیں*
جیب کترا، بازی گر، کاریگر، وغیرہ
*3۔ اسم فائل قیاسی*
ایسا اسم جو مصدر سے بنے اُسے اسم فائل قیاسی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا، آنا سے آنے والا، دوڑنا سے دوڑنے والا وغیرہ
*4۔ اسم فائل سماعی*
ایسا اسم فائل جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو، بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو، اُسے اسم فائل سماعی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
شتربان، فیل بان، گویا، بھکاری، جادو گر، گھسیارا، پیغامبر، وغیرہ
*فاعل اور اسم فاعل میں فرق*
*1-فاعل*
فاعل ہمیشہ جامد اور کسی کام کرنے والے کا نام ہوتا ہے
*مثالیں*
حامد نے اخبار پڑھا، عرفان نے خط لکھا امجد نے کھانا کھایا، اِن جملوں میں حامد، عرفان اورامجد فاعل ہیں۔
*2-اسم فاعل*
اسم فاعل ہمیشہ یا تو مصدر سے بنا ہوتا ہے۔
*مثالیں*
لکھنا سے لکھنے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا یا پھر اس کے ساتھ کوئی فاعلی علامت پائی جاتی ہے۔ مثلا پہرا دار،باغبان، کارساز، وغیرہ
*5۔ اسم مفعول*
ایسا اسم جو اُس شخص یا چیز کو ظاہر کرے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو اسم مفعول کہلاتا ہے۔
یا
جو اسم کسی شخص، چیز یا جگہ کی طرف اشارہ کرے جس پر کوئی فعل یعنی کام واقع ہوا ہو اُسے اسم مفعول کہا جاتا ہے۔
*اسم مفعول کی مثالیں*
دیکھنا سے دیکھا ہوا، سونا سے سویا ہوا، رونا سے رویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، سُننا سے سُنا ہوا، وغیرہ۔
اللہ مظلوم کی مدد کرتا ہے، وقت پر بویا گیا بیج آخر پھل دیتا ہے، رکھی ہوئی چیز کام آجاتی ہے، اِن جملوں میں مظلوم، بویا ہوا، رکھی ہوئی اسم مفعول ہیں۔
*عربی کے اسم مفعول*
عربی میں جو الفاظ مفعول کے وزن پر آتے ہیں، اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
*مثالیں*
مظلوم، مقتول، مخلوق، مقروض، مدفون وغیرہ
اسم مفعول کی اقسام
اسم مفعول کی دو اقسام ہیں
اسم مفعول قیاسی
اسم مفعول سماعی
*1۔ اسم مفعول قیاسی*
ایسا اسم جو قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہو اسم مفعول قیاسی کہلاتا ہے۔
یا
ایسا اسم جو مقررہ قاعدے کے مطابق بنایا جائے اُسے اسم مفعول قیاسی کہتے ہیں اور اِس اسم کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے بعد لفظ ”ہوا“ بڑھا لیتے ہیں۔
*مثالیں*
کھانا سے کھایا ہوا، سونا سے سویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، رکھنا سے رکھا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، وغیرہ
*2۔ اسم مفعول سماعی*
ایسا اسم جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنے بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو اُسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔ سماعی کے معنی سنا ہوا کے ہوتے ہیں۔
یا
ایسا اسم جو کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو بلکہ جس طرح اہلِ زبان سے سنا ہو اسی طرح استعمال ہو اسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
دِل جلا، دُم کٹا، بیاہتا، مظلوم، وغیرہ
*فارسی کے اسم مفعول سماعی*
دیدہ (دیکھا ہوا)، شنیدہ (سنا ہوا)، آموختہ (سیکھا ہوا) وغیرہ
عربی کے اسم مفعول سماعی
مفعول کے وزن پر، مقتول، مظلوم، مکتوب، محکوم، مخلوق وغیرہ
*مفعول اور اسم مفعول میں فرق*
*1-مفعول*
مفعول ہمیشہ جامد ہوتا ہے اور اُس چیز کا نام ہوتا ہے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو۔
*مثالیں*
عرفان نے اخبار پڑھا، فصیح نے خط لکھا، ثاقب نے کتاب پڑھی، اِن جملوں میں اخبار، خط اور کتاب مفعول ہیں۔
*2-اسم مفعول*
اسم مفعول ہمیشہ قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہوتا ہے۔
*مثالیں*
سونا سے سویا ہوا، کھانا سے کھایا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا وغیرہ،
*عربی میں مفعول کے وزن پر آتا ہے*: مظلوم، مخلوق، مکتوب وغیرہ،
یا پھر
*فارسی مصدر سے بنتا ہے* جیسے شنیدن سے شنیدہ، آموختن سے آموختہ وغیرہ
*6۔ اسم استفہام*
اسم استفہام اُس اسم کو کہتے ہیں جس میں کچھ سوال کرنے یا معلوم کرنے کے معنی پائے جائیں۔
*اسم استفہام کی مثالیں*
کون، کب، کہاں کیسے، کیوں، وغ
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
*100 Most Famous Urdu Proverbs with English Translation* *1. جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے* Jisay Allah Rakhay usay kon Chakhay. If Allah w...
-
سیگمنڈ فرائڈ نے سب سے پہلے ذہنی عمل کو تین حصوں میں بانٹا 1) شعور (Conscious) 2) تحت الاشعور (Sub Conscious) 3) لاشعور (Un Conscious) ا...