*اچھا اُستاد*
’’استاد وہ نہیں جو کتاب پڑھائے، اصل استاد تو وہ ہےجس کی بات دلوں کو چھوجائے!‘‘
*استاد کی تعریف*
استاد ایک موٹیویٹر ہوتا ہے۔ استاد کیلئے صرف پڑھا دینا، بتا دینا کافی نہیں ہے۔ عمل کیلئے اکسانا، قوتِ ارادی پیدا کرنا، عزم پیدا کرنا، انرجی پیدا کرنا۔۔۔ استاد کا کام ہے۔ پچھلے سو سال کے اندر صر ف انہی ملکوں نے ترقی کی ہے جہاں پڑھانے کا لائسنس ہے۔ وہاں پر اسلحے کا لائسنس آسانی سے مل جاتا ہے، مگر پڑھانے کا اجازت نامہ مشکل سے ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلحے سے صر ف اتنے لوگ مرسکتے ہیں جتنی گولیاں اس میں ہوتی ہیں، جبکہ ایک استاد میں لامحدود گولیاں ہوتی ہیں۔ اس میں اتنا بارود ہوتا ہے کہ یا تو وہ پوری نسل کو اُڑا کر رکھ دیتا ہے یا بنا دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسے پڑھانے کا لائسنس دیا جاتا ہے جس میں چھ خصوصیات ہوں:
*1۔ متعلقہ مضمون پر مکمل مہارت*
پہلی خصوصیت یہ کہ استاد کو اپنے مضمون پر مکمل مہارت ہو۔ مضمون پر مہارت کا مطلب ہے، اپنے مضمون کو وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ کرنا۔
*2. بات چیت/ابلاغ کی صلاحیت*
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ استاد میں بات چیت / ابلاغ کی صلاحیت ہو۔ ابلاغ کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ استاد اپنی بات اپنے شاگردوں کو سمجھا سکے۔ اگر وہ اسٹوڈنٹ کی سطح پر آکر نہیں سمجھا سکتا تو وہ جتنا بڑا استاد کیوں نہ ہو، اس کا مطلب ہے کہ اس میں بات چیت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
*3. سماجی ذہانت/ملنساری*
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سماجی ذہانت پائی جائے، یعنی اس میں ملنساری کی صلاحیت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ استاد کو انسانوں کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ ملنسار ہی نہیں ہوگا تو کیسے کام کرے گا۔
*4. موٹیویشن*
چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اگر استاد میں موٹیویشن نہیں ہے، جذبہ نہیں ہے تو وہ استاد نہیںہے۔ حضرت علی بن عثمان الحجویریؒ اپنی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں، ’’برتن سے وہی نکلے گا جو اِس میں ڈالا گیا ہے‘‘. اگر استاد کے پاس موٹیویشن نہیں ہے تو وہ موٹیویشن دے بھی نہیں سکتا۔ یہ پڑھانے والی چیز نہیں ہے۔ یہ دینے والی چیز ہے۔ موٹیویٹر کو لائسنس ملتاہے۔
*5. سیکھنے کا شوق*
پانچویں خصوصیت استاد کیلئے یہ ہے کہ اس میں سیکھنے کا شوق ہو۔ جو خود پیاسا ہو وہ دوسرے کو پیاسا بناسکتا ہے۔ جس کو خود ہی پیاس کا ادراک نہ ہو، وہ دوسروں کو کیا خاک شعور دے گا۔
*6. آگے بڑھنے کا جذبہ*
چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہو، کیونکہ استاد وہ شخص ہوتا ہے جس نے قوم کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود آگے بڑھنے والا نہیں ہے تو کبھی بھی آگے بڑھنے والے لوگ پیدا نہیں کر سکے گا۔
*مؤثر استاد*
ایک تحقیق کے مطابق، ہمیشہ جب بھی کسی چیز کی قدر نکالنی ہو تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس چیز نے معاشرے میں اپنی کتنی اہمیت بنائی ہے۔ اگر کوئی چیز خود ہی اہمیت نہ بنا سکی تو پھر چاہے تعداد میں جتنی بھی زیادہ ہو جائے، اہمیت نہیں بنے گی۔ ہمارے ملک میں استاد خود ہی اپنی اہمیت نہیں بنا سکا۔ وہ سر کا تاج تھا۔ اگر وہ سر کا تاج خود ہی نہیں بن پایا تو پھر کوئی کیوں سر کا تاج بنائے۔ علم سکھانے والے نے یہ طے ہی نہیں کیا کہ جتنی بڑی ذمہ داری میرے پاس ہے، کیا میں اس کا اہل بھی ہوں یا نہیں اور میں نے اپنا آپ کو منوانا بھی ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک گائک کو کسی محفل میں بلایا جائے تو وہ خود کو منوا کر جاتا ہے جبکہ استاد عموماً خود کو نہیں منواتا کہ میں استاد ہوں۔ استا د جب بچوں کو متاثر نہیں کر سکے گا تو بچے بھی اس کا ادب نہیں کریں گے۔ وہ صرف ڈر کی وجہ سے ظاہراً اس کا ادب کریں گے۔
حضرت علامہ اقبالؒ اپنے دوستوں میں بیٹھے تھے کہ سامنے سے ان کے استاد مولوی میر حسن صاحب گزرے۔ علامہ اقبالؒ ایک دم اٹھے اور ان کے ساتھ چل دیئے اور ان کو گھر تک چھوڑ کر آئے۔ دوستوں نے دیکھا کہ آپؒ کے ایک پاؤں میں جوتی ہے، دوسرے میں نہیں ہے، کیونکہ آپؒ جلدی میں جوتی پہننا بھول گئے تھے۔ آپ نے یہ ادب اس لئے کیا کہ استاد نے خود کو منوایا تھا۔ آج ہمارے پاس کتنے مولوی میر حسن ہیں؟ ہم رسمی طور پر ادب تو کررہے ہیں، لیکن دل میں ادب نہیں۔ اس کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا تو مل جاتا ہے، مگر اس سے انقلاب نہیں آتا۔ جو تعلیم ملنی چاہئے تھی، وہ نہیں مل رہی۔ صرف رٹا لگوا دینا، سبق یاد کرا دینا۔۔۔ تعلیم نہیں ہے۔ تعلیم تو اندر کی تبدیلی کا نام ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’استاد علم نہیں دیتا، استاد علم کی پیاس دیتا ہے۔ اگر پیاس مل جائے تو علم خود چل کر آتا ہے‘‘، یعنی پیاس اتنی طاقتور چیز ہے کہ اگر آپ علم کے پیاسے ہیں تو پھر آپ اس کیلئے کتاب بھی خریدیں گے، اس کیلئے ورکشاپ میں جائیں گے، اس کیلئے سفر بھی کریں گے، اس کیلئے اسکالرشپ کا بھی پتا کریں گے۔اس کیلئے ہجرت بھی کریں گے، اس کیلئے بڑی سے بڑی قیمت بھی ادا کریں گے، اس کیلئے پیدل بھی چلیں گے۔
اگر گھوڑے کو پیاس لگی ہو اور اسے دس لوگ پکڑیں، تب اسے کوئی پانی پینے سے روک نہیں سکتا۔ اگر گھوڑے کو پیاس نہ ہو اور دس لوگ اسے زبردستی پانی پلانا چاہیں تو وہ نہیں پیئے گا۔ آج بھی آپ اگر قابل استاد بن جائیں تو لوگ پلکیں بچھائیں گے۔ آپ آج اپنا مقام بنانے کو تیار ہوں، دنیا سرنگوں ہونے کو تیار ہو جائے گی۔ لیکن اگر آپ ہی طے نہ کریں تو جتنا مرضی اسکیل بڑھ جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مولانا رومؒ سے ان کے آخری ایام میں کسی نے پوچھا، آپ دنیا سے جانے لگے ہیں۔ آپؒ نے جواب دیا، ’’میں دنیا کی مسندسے اتروں گا، دلوں کی مسند پر بیٹھوں گا۔‘‘ کتنے بڑے استاد تھے جنھیں یہ یقین تھا کہ مجھے دنیا سے جانے کی کوئی پروا نہیں ہے، کیونکہ جو کام میں نے کیا ہے اس کام کی وجہ سے لوگ مجھے دلوں پر بٹھائیں گے۔ یہ اتنا بڑا سچ تھا کہ آٹھ سو سال بعد حضرت علامہ اقبالؒ جیسی شخصیت بھی کہتی ہے کہ میں اقبال نہ ہوتا اگر رومی میرا استاد نہ ہوتا۔استاد کی حیثیت سے آپ کے اندر کوئی ایسا انداز ضرور ہونا چاہئے جو بچے کا دل موہ لے۔
سب سے پہلے خود کو مانیے۔ جب اپنی نظر میں اپنا مقام بن جائے گا تو پھر زمانہ بھی آپ کے مقام کی قدر کرے گا، لیکن آپ اپنی نگاہوں میں قابل قدر نہیں ہیں تو دنیا میں بھی قدر نہیں ہوگی۔ جب تک استاد آٹھ سے ایک بجے والا استاد ہو گا، وہ اپنا مقام نہیں بنا سکے گا۔ جب بھی اس میں کوئی ٹیلنٹ ہوگا، اپنا مقام خود بنا لے گا۔ یہ واحد پروفیشن ہے جو اپنے اوپر چوبیس گھنٹے طاری رکھنا پڑتا ہے۔ دنیا میں آنا اور جانا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ہر مخلوق کے ساتھ ہورہا ہے۔ دنیا میں موثر ہونا مسئلہ ہے۔
شروع میں جب بھی گاڑی رکتی ہے تو دھکے سے ہی چلتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی گاڑی ایک دم سے رفتار پکڑلے تو پھر وہ نہیں چل سکتی۔ اسی طرح، بچے کو راستے پر چلانے کیلئے دھکے کی ضرورت ہوتی ہے اور کتنے ہی بچے اس دھکے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کے کانوں میں یہ آواز پڑنی چاہئے کہ تم کرسکتے ہو، بس تھوڑی سی ہمت کرو۔ اس لئے آپ صرف استاد نہ بنیں، بلکہ موثر استاد بنیں۔ اپنے اند ر کوئی ایسا فن پیدا کریں جس سے بچہ متاثر ہو، کیونکہ فزکس، کیمسٹری، میتھ بہت آسان ہے اگر استاد متاثر کرنے والا ہے۔ اگر استاد متاثر نہیں کرسکتا تو پھر دنیا کے آسان ترین مضمون میں بھی آدمی پیچھے رہ جاتا ہے۔
*نقل وچسپاں*
No comments:
Post a Comment