لزومیت پسندی کا فلسفہ آج سے تقریباًلزومیت پسند بنیادی طور پر 3R فلاسفی کے قائل تھے ـ 3R کا مطلب بچوں کو کلاس میں لکھنا، پڑھنا اور الجبر کے بنیادی اصول (جمع ، تفریق، ضرب ، تقسیم) سیکھنا مقصود تھا ـ گورنمنٹ آف پنجاب نے لزومیت پسندوں کی 3R فلاسفی کو تبدیل کر کے 2R میں تبدیل کر دیا اور تیسری کلاس تک اپلائی کر دیا ـ یعنی تیسری کلاس تک بچے کو پڑھنا اور الجبر کے بنیادی اصولوں سے واقفیت ہونی چائیے ـ مطلب گورنمنٹ تیسری کلاس تک اسسمنٹ/ جائزہ لیتے وقت بچوں سے لکھنے کی ڈیمانڈ نہیں کرتی کہ بچوں کو لکھنا بھی آنا چائیے ـ مگر افسوس سو سال گزر جانے کے بعد بھی ہم لوگ اِس قدر پیچھے ہیں کہ چار سالوں (کچی، پہلی، دوسری، تیسری) میں بچوں کو 2R فلاسفی کے قابل بنا سکیں ــــــــــ 3R فلاسفی تو بہت دور کی بات ہے جو گورے اپنے ممالک میں سو سال پہلے اپلائی کر چکے ـ
فلسفہِ تصوریت
ـــــــــــــــ
اِس دنیا میں جو چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں وہ دراصل اِن حقیقتوں کی نقل / پرچھائیں ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے ۔ اِسی وجہ سے اِس نظریہ کو نظریہ تصوریت کہتے ہیں
اِس فلسفہ کے مطابق کائنات کی ہر شے اِس حقیقت کا عکس ہے جِس کا تصور انسان کے ذھن میں ہے اِس لئے حقیقت سے آگاہی کے لئے تصور کا سہارا لیا جا سکتا ہے ـ جو اِس مادی دنیا کے علم کا ذریعہ ہے ـ
مادی دنیا حقیقت نہیں ـــــــ مگر حقیقت کا پر ہے اِسی لئے حواس کے ذریعہ حقیقت پہچانی نہیں جا سکتی ـ حقیقت کا علم ایک چھٹی حِس سے حاصل ہوتا ہے جِس کو افلاطون عقل و ادراک کا نام دیتا ہے َـ
اِب مزید اِس چھٹی حِس کے بارے میں افلاطون کہتا ہے کہ یہ حِس ہر شخص کے پاس نہیں ہوتی ـ بلکہ چند مخصوص لوگوں کو خدا نے عطا کی ہے جو درحقیقت، حقیقت کا علم حاصل کر سکتے ہیں اور وہی اعلٰی خاندان کے حکومت کرنے کے مستحق ہوتے ہیں
کیونکہ افلاطن کے نزدیک "علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہر فرد میں نہیں ہے" یہ جوہر قدرت
No comments:
Post a Comment